ستم ظریفیاں اور مکافات عمل

عجیب معاملہ ہے کہ وہ تمام نظام جس کو جہانگیر ترین نے اس امید پر کسانوں کے خون پسینے اور چینی کے پیسوں کو بروئے کار لا کر ترتیب دیا تاکہ وہ مزید طاقت ور ہوں اب انہی کے گلے پڑ چکا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو اپنے جہاز کی سیٹ پر بیٹھ کر موبائل سے چلانے والے جہانگیر ترین (اے ایف پی)

حالات کی ستم ظریفیاں کیا غضب ڈھا رہی ہیں۔ امریکہ جو پچھلے 100 سالوں سے دنیا کے تقریباً ہر خطے میں ’عوامی انقلاب‘ کے نام پر بذریعہ جمہوریت اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا ماہر سمجھا جاتا تھا اب عوامی احتجاج کی گرفت میں ہے۔

جو عوامی تحریکیں اس نے اپنے ناپسندیدہ حکمرانوں اور نظریات کو تہس نہس کرنے کے لیے تعاون اور مادی مدد سے پروان چڑھائیں اب ایک اور شکل میں خود رو پودے کی طرح اس کے دامن میں اگ رہی ہیں۔

عراق، لیبیا اور درجنوں دوسرے ممالک میں تاریخ کو تبدیل کرنے والے اور اندرونی خلفشار اور بدامنی کو ’مقبول آواز‘ کا درجہ دینے والے اپنے شہریوں کے ہاتھوں لوٹ مار اور بدامنی پر کف افسوس مل رہے ہیں۔ جو اچھے بھلے ممالک کے چلتے ہوئےادارے تلپٹ کر کے نئے تجربات کی منڈی لگاتے تھے اب مختلف ریاستوں میں پولیس جیسے قانون نافذ کرنے والے محکمے کو ختم کرنے کی تحریک کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

لینن اور سٹالن کے مجسموں کو گرتا دیکھ کر سکون محسوس کرنے والا برطانیہ اب چرچل کی یادگار کو بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتا ہے۔ جنہوں نے لاکھوں انسانوں کو افریقہ سے غلامی کے کاروبار کی بھینٹ چڑھایا اور نسل در نسل در نسل ان کو جانوروں سے بدتر حالت میں رکھا، وہ اب الٹے قدم بھاگتے ہوئے رحم، امن اور آشتی کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ کیا نیا زمانہ ہے۔ کیا ستم ظریفی ہے۔

کیا مکافات عمل ہے۔ وہ ٹرمپ اور جانسن جو ہر کسی کو اپنے ممالک سے سیکھنے کو کہتے تھے اب اپنے عوام کو دوسروں کی مثالیں دے کر مہذب رہنے کی استدعا کرتے ہیں۔ ٹرمپ کا تو سیاسی بیڑا غرق ہی ہو گیا ہے۔ اب کہہ رہے ہیں کہ اگر ہار گئے تو کوئی اور کام کریں گے۔

سیاسی ستم ظریفیوں کے اس موسم نے صرف مغرب میں ہی ڈیرے نہیں ڈالے- ہمیں ایسی مثالیں اپنے ملک سے بھی مل رہی ہیں۔ انہونیاں جو کسی کے وہم وگمان میں نہ تھیں، اب ہر دوسرے روز سامنے آ رہی ہیں۔ کچھ مسالے دار چٹکلوں کی طرح اور کچھ ایک خاموش قدرت کے انصاف کی مانند جو نیب کی طرح پریس ریلیز کا مرہون منت نہیں ہوتا، بس ہو جاتا ہے جب ہونا ہوتا ہے۔ بسا اوقات ایسے ہوتا کہ اس کے ہونے کے بعد پتا چلتا ہے کہ کیا ہوا ہے۔

جہانگیر ترین اس کی زندہ مثال ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں عمران خان اور ان کی جماعت کے روح رواں اور سب کے مائی باپ نے سیاست کے ہر حالیہ طوفان میں اپنا حصہ ڈالا، بلکہ چند ایک طوفانوں جیسے کہ دھرنا ون اور پھر 2018 کے انتخابات کا لائحہ عمل اپنے ہاتھوں سے ترتیب دیا۔

نواز شریف کی سیاست کو ختم کر کے ان کو ملک بدر کرنے سے لے کر ان کے کاروبار اور اگلی نسل کے تمام دروازے بند کرنے کے پلان میں پاکستان کے اس امیر ترین شخص نے جو کلیدی کردار ادا کیا وہ سب پر واضح ہے۔

شریفوں کی چھٹی، فوج سے ان کی مکمل کٹی اور اپنے مکمل راج کا بندوبست کرنے والے جہانگیر ترین آج کل اس تمام الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں، جن میں نواز شریف کو اٹکایا تھا۔ جس ملک میں نواز شریف کو پاکستان سے نکلوا کر جلا وطنی کی زندگی گزروانی تھی اب جہانگیر ترین بھی اسی ملک میں بمع اہل و عیال موجود ہیں۔ جن الزامات کی تحقیقات کے کھاتے کھول کر اپنے مخالفین پر زمین تنگ کرنی تھی اب ویسے ہی الزامات ان کے سر تھوپے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ وہ تمام نظام جس کو جہانگیر ترین نے اس امید پر کسانوں کے خون پسینےاور چینی کے پیسوں کو بروئے کار لا کر ترتیب دیا تاکہ وہ مزید طاقت ور ہوں اب انہی کے گلے پڑ چکا ہے۔ سیاست میں سے عدالت نے نکال دیا۔ پارٹی سے پارٹی والوں نے اور اب کاروبار میں احتساب کے اس عمل نے چھاپہ مار دیا ہے جس کی بدترین مثالیں بھی اس وجہ سے سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اس کا نشانہ دوسرے بن رہے تھے۔

اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ جہانگیر ترین مجرم ہے یا اس نے اس ملک کے عوام سے وہ ہاتھ کیا ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ آج کے پاکستان میں الزام لگا کر مجرم بنانے اور مقدمے کے بغیر سزا دینے کا رواج عام ہے۔

جہانگیر ترین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے، لیکن یہ سب کچھ ان کی جماعت کے ہاتھوں ہی ہو رہا ہے۔ وہ جماعت جس کو وہ اپنے جہاز کی سیٹ پر بیٹھ کر موبائل سے چلایا کرتے تھے۔

ستم ظریقی کی دوسری مثالیں بھی اتنی ہی حیران کن ہیں۔ ایک ایسی حکومت جس کو ملک کی معیشت کو بےمثال بنانے کے لیے لایا گیا تھا اب خود مان رہی ہے کہ ’دیوالیہ نکل‘ گیا ہے۔ سب کچھ کرونا (کورونا) کے ماتھے تھوپ کر پریس کانفرنس کے دو گھنٹے تو نکالے جا سکتے ہیں لیکن دو سال میں 5.7 کے قریب جی ڈی پی کی ترقی کو مائنس 0.4 پر لانے کے عمل کا معاملہ اس وبا سے الگ کہانی ہے۔

اسی طرح پاکستان کو بھنور سے نکالنے کا پراجیکٹ جس کے ذریعے قائداعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کے تکمیل ہونی تھی اب ملک کو ایسے نکتے پر لے آیا ہے کہ عزت سے بجٹ بنانا ناممکن ہو گیا ہے۔ مانگےتانگے کی چادر کبھی سر سے اتر جاتی ہے اور کبھی جسم گھٹنوں تک ننگا ہو جاتا ہے۔

امور ریاست چلائیں تو امور حکومت رک جاتے ہیں۔ امور عوام کی بات تو نہ ہی کریں۔ ان کا صرف نام استعمال ہوتا ہے۔ اصل میں امور عوام کی وہی حیثیت ہے جو بجٹ میں صحت اور تعلیم کی رقم کی، یعنیٰ کم ترین۔

تمام ستم ظریفیوں کی نانی کا یہ دعویٰ ہے کہ پاکستان میں حالات قابو میں ہیں اور ملک کی سمت بالکل درست ہے۔ ہمیں یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ ملک میں بہترین فیصلہ سازی ہو رہی ہے اور ہمارا مستقبل روشن ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی اپنے گھر کو آگ لگا کر ہاتھ سینکتے ہوئے یہ کہے کہ اس نے جاڑے سے بچنے کا زبردست انتظام کر لیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ