امریکہ میں ایران کے خلاف افغانوں کا احتجاج

سوشل میڈیا پر Iamburning#کے نام سے مقبول ہیش ٹیگ پر دنیا بھر سے افغان شہری اور متاثرین سے ہمدردی کرنے والے افراد ٹویٹ کر رہے ہیں۔

واشنگٹن میں منعقد ہونے والے اس احتجاج میں بیشتر مظاہرین کا کسی سیاسی یا سماجی تنظیم سے تعلق نہیں تھا(انڈپینڈنٹ اردو)

امریکہ میں مقیم افغان شہریوں نے ایران میں پانچ جون کو افغان پناہ گزینوں کے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے کے خلاف اتوار کو واشنگٹن ڈی سی میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔

اس واقعے کی وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایرانی سرحدی اہلکاروں کی فائرنگ سے صوبہ یزد میں افغان پناہ گزینوں کی گاڑی کو آگ لگی ہے اور ایک نوجوان چلا رہا ہے کہ ’مجھے پانی دو میں جل رہا ہوں۔‘

اس کی یہ پکار اب سوشل میڈیا پر Iamburning#کے نام سے مقبول ہیش ٹیگ بن گیا ہے، جس پر دنیا بھر سے افغان شہری اور متاثرین سے ہمدردی کرنے والے افراد ٹویٹ کر رہے ہیں۔

افغان حکومت نے اس واقعے میں تین شہریوں کی ہلاکت اور متعلقہ ویڈیو کی تصدیق کی ہے جس کی وجہ سے ایران اور افغانستان کے درمیان ایک نئے سفارتی تنازعے نے جنم لیا ہے۔

افغان عوام ایران میں مقیم اپنے ہم وطن پناہ گزینوں کے ساتھ اس رویے پر سوشل میڈیا کے سا تھ ساتھ عوامی مظاہروں کے ذریعے غم و غصہ ظاہر کررہے ہیں۔

سفارتی کشیدگی

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یزد میں پیش آنے والے اس واقعے سے ایک ماہ قبل ایک اور واقعے میں 45 افغان مزدور اس وقت ہلاک ہوئے تھے جب ایران کے سکیورٹی اہلکاروں نے مبینہ طور پر انہیں منشیات فروش سمجھ کر ان کا پیچھا کیا۔

اس کے نتیجے میں ان کی گاڑی ایک ندی میں جا گری۔ اگرچہ افغان صدراشرف غنی نے اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک 10 رکنی کمیٹی قائم کی ہے لیکن ایران اس بات سے انکاری ہے کہ یہ واقعہ اس کی سرزمین پر پیش آیا تھا۔

اقوام متحدہ کے ادارے برائے پناہ گزین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق اس وقت ایران میں نو لاکھ رجسٹرڈ پناہ گزین ہیں جب کہ ایران میں افغان تارکین وطن کی کل تعداد 30 لاکھ کے لگ بھگ ہے، جن کی اکثریت اس وقت وہاں چلی گئی جب سوویت یونین نے 1979 میں افغانستان پر حملہ کیا تھا۔

واشنگٹن میں مظاہرین نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ ’ہم جل رہے ہیں‘، ’سیاسی پناہ حاصل کرنے والوں کو تحفظ  دو‘ اور ’ایک شخص کی ہلاکت پوری انسانیت کی ہلاکت ہے۔‘

اسباب ہجرت

مظاہرے کے متنظمین میں سے ایک ظفر اعظم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بیشتر مظاہرین کا کسی سیاسی یا سماجی تنظیم سے تعلق نہیں بلکہ یہ وہ افغان ہیں جو اپنے ہم وطنوں کے ساتھ افغانستان کے پڑوسی ممالک میں اپنائے گئے رویے سے تنگ ہیں۔

’ہم نے مظاہرے کے لیے افغان سفارت خانہ کا انتخاب اس لیے کیا کیوں کہ ہماری (افغان) حکومت نے اپنے شہریوں کے حقوق کے لیے آواز بلند نہیں کی۔ افغانستان میں کرپشن واحد وجہ ہے جس کے باعث افغان روزگار کی تلاش میں اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اگر افغانستان سے کرپشن کا خاتمہ ہو تو ہمارے لوگوں کو اپنے ملک سے باہر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ہم  چاہتے ہیں کہ ان واقعات کی صاف اور شفاف تحقیقات ہوں۔ افغان سفارت خانہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیق کریں گے۔‘

مظاہرین نے ایران پر زور دیا کہ وہ پناہ گزینوں کے ساتھ مبینہ امتیازی سلوک فوراً ختم کرے اور مہاجرین سے متعلق موجود بین الاقوامی قوانین کا احترام کرے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ایران حالیہ واقعات کی افغان حکومت اور اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کی اجازت دے اور حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں۔

میرا دل ٹوٹ گیا ہے

امریکہ میں مقیم عالمی شہرت یافتہ افغان امریکی ناول نگار خالد حسینی نے کہا کہ بطور افغان اور پناہ گزین کے حقوق کے علم بردار وہ ان واقعات کو دل ہلا دینے والا اور ناقابل معافی سمجھتے ہیں۔

’میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ افغان تاریکین وطن کے خلاف ایرانی پولیس کے تشدد کو رکنا چاہیے۔ ایران کو ان واقعات کی تحقیق کرنی چاہیے اور جو ان واقعات میں ملوث تھے ان کا احتساب ہونا چاہیے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی سوشل