پی ٹی ایم کے مذاکرات میں مطالبات کیا ہوں گے؟

میری اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ اعلان اچانک نہیں ہوا بلکہ پچھلے کچھ ماہ سے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان خفیہ رابطے جاری تھے۔

پی ٹی ایم رہنما محسن داوڑ (دائیں)، افراسیاب خٹک (درمیان) اور علی وزیر (بائیں) ایک پریس کانفرنس کے دوران (تصویر: اے ایف پی)

جنوری 2018 سے لے کر اب تک پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے حوالے سے مختلف چہ میگوئیاں ہوتی رہیں۔ اس تحریک نے سابق فاٹا کے علاقوں میں جس قدر زور پکڑا اتنا ہی وہ تنقید کی زد میں بھی آئی۔

اس عرصے میں پی ٹی ایم کے حوالے سے مختلف مباحث نے بھی جنم لیا۔ حال ہی میں ایک بحث یہ چل پڑی کہ پی ٹی ایم صرف جنازوں کی سیاست تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن اگر اس بحث کو زمینی حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی ایم نے جس بھی مسئلے کو لے کر احتجاج کیا ہے اس میں لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ پی ٹی ایم نے بہت سارے مسائل کو اپنے فائدے کے لیے بھی استعمال کیا۔

فروری 2018 کی بات ہے جب منظور پشتین کے ساتھ گپ شپ کے دوران میں نے ان کی تحریک کے مستقبل کے حوالے سے پوچھا تو انہوں نے واضح کیا کہ 'جیسے ہی راؤ انوار کو سزا، لینڈ مائنز کا صفایا اور لاپتہ افراد مل جائیں تو اسی دن اس تحریک کو ختم کردوں گا۔'

لیکن اس کے بعد اس تحریک کے مطالبات بھی بڑھتے گئے اور پی ٹی ایم زور بھی پکڑتی گئی مگر اسی دوران پی ٹی ایم کے کچھ لوگوں کی جانب سے ایسی باتیں اور لوازمات اختیار کیے گئے کہ انہیں سیاسی جماعتوں کی حمایت سے بھی محروم ہونا پڑا۔

شروع میں پی ٹی ایم کو حکومت کی طرف سے خاطر خواہ توجہ نہ ملی لیکن جب پی ٹی ایم سٹریٹ پاور دکھانے میں کامیاب ہوئی تو حکومت نے انہیں مذاکرات کی دعوت دی۔ ان مذاکرات کا ملک کے ہر طبقے نے خیر مقدم کیا، لیکن حکومت کی غیرسنجیدگی اور پی ٹی ایم کے کچھ مطالبات نے مذکرات کو ناکام کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2019 میں ایک بار پھر مذاکرات شروع ہوئے۔ ابھی مذاکرات ابتدائی مراحل میں ہی تھے کہ خڑ کمر کا واقعہ ہوا اور اس کے باعث یہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔ دونوں فریقین کی آپس کی لغزشوں کی وجہ سے سابق فاٹا کے مسائل یوں ہی لٹکے رہے جس سے عوام کے جذبات بری طرح متاثر ہوئے اور ان میں کچھ حد تک انتہا پسندی بھی پروان چڑھی۔

12 جون 2020 کو حکومت نے پی ٹی ایم کو نئے مذاکرات کی پیشکش کی۔ میری اطلاعات کے مطابق حکومت کی جانب سے یہ اعلان اچانک نہیں ہوا بلکہ پچھلے کچھ ماہ سے پی ٹی ایم اور حکومت کے درمیان خفیہ رابطے جاری تھے لیکن پی ٹی ایم نے حکومت کو اس پر مجبور کیا کہ وہ میڈیا پر اس مذاکرات کی پیشکش کرے، سو پرویز خٹک نے ایسا ہی کیا جو کہ حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ پی ٹی ایم کے مطالبات بھی بدل گئے۔ ان مذاکرات میں پی ٹی ایم کے اپنے ساتھیوں کے خلاف درج ایف آئی آرز کے خاتمے، دہشت گرد عناصر کا وزیرستان سے صفایا اور ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام ان کے اولین مطالبات ہوں گے۔ باقی مطالبات ضمنی ہوں گے۔ بہرحال دونوں فریقین کو عوام کی خاطر مذاکرات کو سنیجدہ لینا چاہیے۔

پی ٹی ایم کے کچھ اہم اراکین کا پرویز خٹک پر تنقید کرنا اور اسی طرح حکمران جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے پی ٹی ایم پر الزامات لگانا، مذاکرات کی ناکامی کا باعث بن سکتے ہیں لہذا دونوں فریقین کو چاہیے کہ لچک اور سنجیدگی کا مظاہرہ کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ