محنت پاکستانی مزدور جتنی لیکن اجرت کم ملتی ہے: افغان پناہ گزین مزدور کا شکوہ

تقریباً 40 سال سے پاکستان میں رہنے والے اسد خان اور ان جیسے باقی افغان پناہ گزینوں کو کئی بڑے مسائل کا سامنا ہے۔

پاکستان میں رہنے والے افغان پناہ گزین جہاں دیگر مسائل سے دوچار ہیں وہیں انہیں زیادہ محنت مزدوری کے عوض کم اجرت ملنے کا اہم  مسئلہ بھی درپیش ہے۔

بلوچستان میں رہائش پذیر افغان پناہ گزین مزدور نہ صرف کوئٹہ بلکہ دیگر شہروں میں بھی جاری سرکاری اور نجی تعمیراتی منصوبوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں۔

بلوچستان کے علاقے پشین میں واقع افغان پناہ گزینوں کے سرانان کیمپ میں رہائش پذیر مزدور اسد خان کا شکوہ ہے کہ وہ پاکستانی مزدوروں جتنی محنت  کرتے ہیں لیکن انہیں اجرت کم ملتی ہے۔ 'محنت تو ہم ویسے ہی کرتے ہیں لیکن مقامی باشندے کو دن بھر کی دیہاڑی ایک ہزار روپے تک اور ہمیں 500 سے 700 روپے دی جاتی ہے۔'

اسد کے مطابق جب وہ اس دوہرے معیار پر سوال کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ 'تم لوگ مہاجر ہو اور وہ مقامی۔'

بلوچستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی اکثریت محنت مزدوری سے وابستہ ہیں اور اسی سے ان کا گزر بسر ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا محنت مزدوری کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں کیوں کہ وہ دکان کرائے پر لے سکتے ہیں اور نہ ہی بینک سے چیک کیش کراسکتے ہیں۔

'ایک اور بڑا مسئلہ سفر کرنا ہے، ہمیں مسافر بس کا ٹکٹ نہیں ملتا کیونکہ ڈرائیور حضرات کہتے ہیں کہ تم لوگوں کی وجہ سے فرنٹیئر کور (ایف سی) والے ہمیں تنگ کرتے ہیں اس لیے تم لوگوں کو نہیں لے جائیں گے۔'

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے افغان پناہ گزینوں کے مطابق پاکستان میں 14 لاکھ افغان پناہ گزین 56 کیمپوں میں موجود ہیں، جن میں سے 10 کیمپ بلوچستان میں 43 خیبر پختونخوا اور ایک پنجاب میں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسد دیگر پناہ گزینوں کی طرح افغانستان میں روسی فوج کی آمد کے بعد ہجرت پر مجبور ہوئے اور اب بلوچستان کے پناہ گزین کیمپ میں رہتےہیں۔ 'ہم افغانستان کے علاقے مزار شریف جوز جان کے رہائشی ہیں۔ وہاں روسی فوج کے آنے کے بعد ہم نے ہجرت کی اور پہلے پشین کے بند خوشدل خان اور بعد میں سرانان کیمپ میں آگئے۔'

اتنا طویل عرصہ پاکستان میں گزارنے کے باوجود اسد سمجھتے ہیں اگر اب بھی افغانستان میں امن قائم ہوجائے تو وہ یہاں سے چلے جائیں گے۔ 'یہاں اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود ہمیں کیا ملا؟ ابھی تک کوئی ہمیں تسلیم نہیں کرتا، ہمارے پاس شناخت نہیں اور نہ ہی کوئی مقامی باشندہ ہمیں برابری کی جگہ دیتا ہے۔'

یو این ایچ سی آر کے مطابق سال 2017 میں پاکستان حکومت نے آٹھ لاکھ 80 ہزار افغان پناہ گزینوں کو افغان سٹیزن کارڈ جاری کیے جبکہ اب بھی پانچ لاکھ غیر رجسٹرڈ افغان پناہ گزین پاکستان میں مقیم ہیں۔

بلوچستان میں افغان پناہ گزینوں کے کیمپوں میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے اور یہاں کے مقیم صحت، تعلیم اور دیگر مسائل کا شکار ہیں۔ اسد کے بقول، سرانا ن کیمپ میں صحت کی کوئی سہولت نہیں، ایک ہسپتال کسی این جی او نے بنایا تھا جس سے لوگوں کو کچھ فائدہ تھا وہ بھی بند ہوگیا۔

کیمپوں میں رہائش پذیر مہاجرین کا ایک اور مسئلہ پانی بھی ہے، جو  انہیں دور دراز سے لانا پڑتا ہے یا پیسوں کے عوض خریدنا پڑتا ہے۔ 'دنیا میں لوگ  کرونا وائرس سے خوف کھاتے ہیں لیکن ہم اپنے پینے کے پانی کو دیکھ کر خوف محسوس کرتے ہیں۔ ہمارا پینے کا پانی کرونا سے بھی زیادہ خطرناک ہے اوراگر کوئی اسے دیکھے تو کہے گا تم لوگ کیسے انسان ہو جو یہ پانی پیتے ہو۔'

اسد کے مطابق، یہاں تعلیم کی کوئی سہولت نہیں اور چھوٹے بچے پڑھنے کی بجائے اپنے بڑوں کی طرح سخت محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔

افغان پناہ گزینوں کی اکثریت 40 سال سے ملک بھر کی طرح بلوچستان میں مقیم ہے۔ انہیں امید ہے کہ ایک دن افغانستان میں امن قائم ہوگا اور وہ لوگ اپنے وطن لوٹ جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا