پاک افغان سرحد پر تجارت بحال مگر مزدور اتحاد کا احتجاج اب بھی جاری 

کرونا وائرس کے باعث پاکستان اور افغانستان کے درمیان مارچ کے مہینے سے معطل  دو طرفہ تجارت بحال  کر دی گئی ہے تاہم مزدوروں کا احتجاج اب بھی جاری ہے۔

سرحد کی بندش کے خلاف مزدور احتجاج  جاری رکھے ہوئے ہیں (مظاہرین)

کرونا وائرس کے باعث پاکستان اور افغانستان کے درمیان مارچ کے مہینے سے معطل  دو طرفہ تجارت بحال  کر دی گئی ہے تاہم مزدوروں کا احتجاج اب بھی جاری ہے۔

وفاقی وزارت داخلہ کی طرف سے احکامات کے بعد بلوچستان میں چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد کو تجارت کے لیے کھول دیا گیا ہے جبکہ طورخم اور شمالی وزیرستان کی غلام خان گزرگا ہ کو بھی بحال کر دیا گیا ہے۔ 

اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکا اللہ درانی کے مطابق سرحد کو دو طرف تجارت کے لیے 24 گھنٹے کے لیے کھول دیا گیا ہے تاہم  ہفتے میں صرف ایک روز پیدل آمد ورفت کے لیے مقرر ہوگا۔ 

دوسری جانب سرحد کی بندش کے خلاف مزدور احتجاج  جاری رکھے ہوئے ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ سرحد کو ان کے لیے مکمل کھولا جائے  تاکہ وہ  اس کے ذریعے اپنا کاروبار کرسکیں۔  

بلوچستان کے سرحدی علاقے چمن میں اکثر مزدور لوگوں کا روزگار افغان سرحد سے منسلک ہے۔ 

سرحد سے افغانستان کندھے پر سامان لے جانے والے مزدوروں کو مقامی لوگ ’لغڑی‘ کہتے ہیں جن کا دارو مدار روزانہ سامان لے جانے اور لانے پر منحصر ہے۔ 

غوث اللہ بھی انہیں مزدوروں میں سے ایک ہیں جو گذشتہ 20 سالوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سرحد کی بندش نے انہیں خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ 

پاک افغان سرحد کے قریب ٹینٹ لگائے یہ لوگ گذشتہ 20 روز سے احتجاج کر رہے ہیں۔

غوث اللہ کے بقول یہاں روزگار کے ذرائع نہ ہونے کے برابر ہیں اور مقامی لوگ  سرحد پار کر کے افغانستان  سے کچھ سامان لاکر یہاں فروخت کرتے ہیں جن سے ان  کا گھر چلتا ہے۔ 

پاک افغان سرحد کی بندش سے جہاں ایک طرف روزگار کے مسئلے پیدا ہو رہے ہیں وہیں لوگوں کے رشتہ دار بھی سرحد کے اس پار پھنسے ہوئے ہیں۔

لغڑی اتحاد کے سربراہ امیر  محمد کے مطابق سرحد کی بندش کو ’ہم ایک جسم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا عمل سمجھتے ہیں۔‘

امیر محمد کے بقول  اب یہ مسئلہ روزگار سے نکل کر انسانی مسئلہ بن گیا ہے کیونکہ ہمارے آدھے لوگ اس پار پھنسے ہیں اور آدھے اس پا ر ہیں۔ 

ان کے مطابق ’ہماری رشتہ داریاں ہیں کسی کی ماں اس طرف  ہے تو بیٹا اس طرف ہے۔  ہمارا مطالبہ بھی یہی ہے کہ اس مسئلے کو صرف روزگار کا مسئلہ نہ سمجھا جائے بلکہ انسانی مسئلہ سمجھ کر حل کیا جائے۔ 

لغڑی اتحاد کے احتجاج میں شامل پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنما ملا بہرام سمجھتے ہیں سرحد کی بندش نے علاقے کی معیشت کو بری طرح متاثر کر دیا ہے۔ 

ملا بہرام کے بقول ’ہم نے حکام کی توجہ مرکوز کرانے کے لیے پہلے مظاہرے کیےاور ریلیاں نکالیں لیکن مسئلہ حل نہ ہونے پر ہم نے دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ 

لغڑی اتحاد کے اعداد و شمار کے مطابق پاک  افغان سرحد پر روزانہ 25 سے 30 ہزار لوگ  کاروبار اور رشتہ داروں سے ملنے کے لیے  سرحد کو کراس کرتے تھے۔ 

ملا بہرام کہتے ہیں کہ سرحد کی بندش سے نہ صر ف چمن بلکہ ضلع قلعہ عبداللہ  بلکہ پشتون اکثریتی علاقے اور کراچی تک کاروبار متاثر ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لغڑی اتحاد کے رہنماؤں کے مطابق  ہمارا مطالبہ ہے کہ سرحد کو دو مارچ سے قبل کی حالت میں کھولا جائے تاکہ یہاں روزگار کا مسئلہ حل  ہو جائے۔ 

ملابہرام نے بتایا کہ ’ہمارے احتجاج کے باوجود کسی نے ہم سے رابطہ نہیں کیا اس لیے ہمارا احتجاج جاری ہے اور مستقبل میں اس میں مزید وسعت لائی جائے گی۔‘ 

ایک دوسرے رہنما  قاسم اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا احتجاج پرامن ہے اور وہ حکام بالا کی توجہ ان مزدوروں کی طرف دلانے کی کوشش کررہے ہیں جن کا روزگار ختم ہوگیا ہے۔ 

قاسم اچکزئی کے بقول ،یہ انتہائی اہم مسئلہ نہ صرف  بلوچستان کے اس سرحدی علاقے میں بلکہ سرحد کے اس پر افغانستان میں بھی لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکاء اللہ  درانی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پاک افغان سرحد کو چھ دن دوطرفہ تجارت اور ہفتے میں ایک دن پیدل آمد ورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے۔ 

ذکا اللہ  کہتے ہیں کہ ’ہم وفاقی وزرات داخلہ کے احکامات کے مطابق سرحد کو کھولنے اور بند کرتے ہیں اب بھی وہاں سے احکامات ملے ہیں تو ہم نے دوطرفہ تجارت کے لیے سرحد کو کھول دیا ہے۔‘ 

لغڑی اتحاد کے احتجاج کے حوالے سے سوال کے جواب میں اسسٹنٹ کمشنر چمن ذکا اللہ نے بتایا کہ یہ لوگ بضد ہیں کہ وہ سرحد کو کاروبار کے لیے پار بھی کرنا چاہتے ہیں اور قرنطینہ سے انہیں استثنیٰ دیا جائے۔ 

ذکا اللہ کے مطابق وفاقی وزارت داخلہ کے حکم کے مطابق جو بھی شخص افغانستان سے آئے گا تو کرونا وائرس کے شبہہ میں ہونے کے باعث انہیں قرنطینہ کرنا ہوگا۔

’ابھی تک ہم نے احتجاج کرنے والوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں کیے ہیں۔‘ 

ذکا اللہ کے مطابق یہ جو احتجاج کر رہے ہیں ان کی تعداد اندازاً دس ہزار کے قریب ہے جو چاہتے ہیں کہ سرحد کو ان کے لیے کرونا سے قبل کی صورتحال میں بحال کیا جائے جو  موجودہ حالات میں ممکن نہیں ہے۔

یاد رہےکہ پاکستان نے پاک ایران سرحد کو بھی  تفتان کے مقام پر پہلے ہفتے میں تین روز تجارت کے لیے کھولا تھا جسے اب پورا ہفتہ تجارت کے لیے کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ 

کرونا  کے باعث پاکستان اور افغانستان سرحد کی بندش کے بعد پاکستانی حکام نے چمن میں سرحد کے قریب قرنطینہ سینٹر بھی قائم کیا ہے جہاں افغانستان سے آنے والے افراد کو رکھا جاتا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان