پاکستان، ایران سرحد پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے اس آپریشن کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا جس کی وجہ 'سکیورٹی وجوہات' بتائی گئیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہم نے 'ٹھوس اقدامات لیے ہیں۔'

20 فروری 2020 کو لی گئی اس تصویر میں پاکستانی سکیورٹی اہلکار اایران کے ساتھ منسلک تفتان بارڈر پر پیٹرولنگ کر رہے ہیں۔(اے ایف پی)

پاکستان اور ایران کی سرحد پر عسکریت پسندوں کے خلاف 'انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ' جاری ہے۔ پاکستانی انٹیلی جنس اہلکاروں اور مقامی افراد کے مطابق 900 کلومیٹر پر محیط اس سرحد پر یہ آپریشن علاقے میں تشدد کے خاتمے کی تازہ کوشش ہے۔

کئی برسوں سے پاکستان اور ایران کی جانب سے ایک دوسرے پر عسکریت پسندوں کو پناہ دینے کے الزام عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ حال ہی میں آٹھ مئی کو ہونے والے ایک حملے میں چھ پاکستانی سکیورٹی اہلکار اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب عسکریت پسندوں کی جانب سے ایف سی کی ایک گاڑی کو بم دھماکے میں نشانہ بنایا گیا تھا۔

بلوچستان میں کئی عسکریت پسند گروہ فعال ہیں اور ماضی میں تشدد کے زیادہ تر واقعات کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے۔ بلوچ عسکریت پسند گروہ 'بلوچ راجی اجوئی سنگر' (براس) کے ترجمان بلوچ خان نے گذشتہ مہینے میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ پاکستانی فوج کی جانب سے کیے جانے والے آپریشن میں دور دراز کے دیہاتوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کارروائیوں میں براس کا کوئی کمانڈر ہلاک نہیں ہوا۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک انٹیلی جنس اہلکار نے عرب نیوز کو بتایا کہ اس آپریشن کا خفیہ نام 'گراؤنڈ زیرو آپریشن' ہے۔ دو اور انٹیلی جنس اہکاروں نے بھی اس آپریشن کی تصدیق کی جبکہ مند اور کیچ کے دو مقامی افراد نے بھی ان علاقوں میں ان کارروائیوں کی تصدیق کی ہے۔

23 مئی کو حکومت کے حامی سیاست دان نوابزادہ جمال خان رئیسانی نے بھی ٹوئٹر پر بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) کے خلاف پاکستانی فوج کے آپریشن کی تصدیق کی تھی۔ یہ دونوں گروپ بھی براس کی چھتری تلے کام کرتے ہیں، جبکہ ان کے علاوہ بلوچ ری پبلکن گارڈز اور بلوچ ری پبلکن آرمی بھی براس کا حصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے جمال رئیسانی کا کہنا تھا کہ ایک سینئیر بی ایل ایف کمانڈر عبدالحمید المعروف غزن بلوچ سمیت دو درجن جنگجو ان کارروائیوں میں ہلاک ہو چکے ہیں جن میں پاکستانی فوج اور فرنٹیر کورپس کے دستے اور انٹیلی جنس اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ پاکستان کی وزارت خارجہ اور آئی ایس پی آر کی جانب سے اس حوالے سے کیے گئے سوال کا جواب نہیں دیا گیا جبکہ وزیر داخلہ اعجاز شاہ کا کہنا تھا کہ ان کی ٹیم ای میل کے ذریعے ان سوالوں کا جواب دے گی لیکن اس خبر کی اشاعت تک ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو نے بھی اس آپریشن کے حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا جس کی وجہ 'سکیورٹی وجوہات' بتائی گئیں لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہم نے 'ٹھوس اقدامات لیے ہیں۔'

تربت میں موجود ایک انٹیلی جنس اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اہلکاروں کی جانب سے ہفتوں تک اہداف کے تعین کے لیے معلومات اکٹھی کی جاتی رہی ہیں اور اب کیچ، پنجگور اور گوادر کے علاقوں میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق گذشتہ مہینے پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایرانی چیف آف آرمی سٹاف میجر جنرل محمد باقری سے فون پر بات کرتے ہوئے سرحد پر باڑ لگانے اور دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعلقات کو فروغ دینے کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔ دونوں شخصیات کے درمیان پاکستانی فوجیوں پر سرحد کے قریب ہونے والے حملے پر بھی گفتگو کی گئی۔

گذشتہ سال 20 اپریل کو پاکستان ایران سرحد کے قریب عسکریت پسندوں نے 14 بس مسافروں کو ہلاک کر دیا تھا، جس کے بعد پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ عسکریت پسند ایران میں موجود ہیں۔ ان کی جانب سے تہران سے ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری براس نے قبول کی تھی۔

دوسری جانب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے دورہ ایران کے دوران صدر حسن روحانی کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ دونوں ملک سرحد پر عسکریت پسندوں کی کارروائی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ کوئیک ایکشن فورس قائم کریں گے۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون، بارڈر فورس اور انٹیلی حکام کے درمیان تعاون کو بھی فروغ دیا جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان