بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں عسکریت پسندی کیوں بڑھ رہی ہے؟

یہ واضح ہے کہ کشمیری اب آزادی یا ’شہادت‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

اویس کا شمار بھی اُن مقامی نوجوانوں میں ہوتا ہے جوسوشل میڈیا سے متاثر ہو کر کشمیر کی آزادی کا مقصد لیے عسکریت پسند تنظیموں میں بھرتی ہو رہے ہیں۔ تصویر: اے ایف پی

بھارت کے زیرِ کنٹرول جنوبی کشمیرکے رہائشی یوسف ملک کو ایک دن اچانک پتہ چلا کہ ان کا جواں سال بیٹا فیس بک پر موجود مواد سے متاثر ہو کرعسکریت پسند بن گیا ہے۔ یہ بیٹا پڑھائی کے ساتھ باغبانی میں بھی ان کی مدد کرتا تھا۔

یوسف کا گھر ہمالیہ کے دامن میں پھیلی دلکش وادی میں واقع ہے، جہاں سے ان کا 22 سالہ بیٹا اویس گھر سے غائب ہونے کے چند روز بعد سوشل میڈیا پر ایک رائفل کے ساتھ منظرِعام پر آیا ہے۔

چھدرے بدن اور گھنگھریالے بالوں والے نوجوان کے بارے میں ایک پوسٹ میں بتایا گیا کہ اس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی ہے، جو مسلم اکثریتی وادی میں بھارت سے آزادی کے لیے سرگرم سب سے بڑی عسکریت پسند تنظیم یے۔

اویس کے والد نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ وہ نہایت ذمہ دار بچہ تھا جو اپنی پڑھائی کے حوالے سے فکرمند رہتا تھا۔

اویس کے خاندان کا کہنا تھا کہ غائب ہونے کے بعد انہوں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔

اویس کا شمار بھی اُن مقامی نوجوانوں میں ہوتا ہے جوسوشل میڈیا سے متاثر ہو کر کشمیر کی آزادی کا مقصد لیے عسکریت پسند تنظیموں میں بھرتی ہو رہے ہیں، جہاں بھارت نے آہنی طاقت سے اپنا تسلط برقرار رکھا ہوا ہے۔

لاکھوں بھارتی فوجی، نیم فوجی اور پولیس اہلکار وادی میں تعینات ہیں جو بھارت اور پاکستان کے درمیان گذشتہ تین دہائیوں سے تنازع کا سبب ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وادی میں نئی دہلی کے اقتدار کے خلاف مسلح جدوجہد کے دوران 50 ہزار کے قریب عام شہری، عسکریت پسند اور سپاہی مارے جا چکے ہیں۔

تاریخی طور پردیکھا جائے تو کشمیر میں جاری بغاوت کی قیادت پاکستانی عسکریت پسند کرتے رہے ہیں، مگر بھارتی حکام کے مطابق اب مقامی کشمیری نوجوان بھی تیزی سے اسلحہ اٹھا رہے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ 2016 سے اب تک تقریباً 400 مقامی کشمیری نوجوان مسلح مزاحمتی تحریک میں شمولیت اختیار کرچکے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ چھ برسوں کے مقابلے میں دو گنا ہے۔ بھارت، عسکریت پسندوں کی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے جبکہ اسلام آباد اس سے انکار کرتا ہے۔

پلوامہ حملہ اور پاک بھارت کشیدگی

اویس کے سوشل میڈیا پر ظہور سے کچھ عرصہ قبل پلوامہ کے ایک اور نوجوان عادل احمد ڈار نے ایک مہلک خودکش حملے میں 40 سے زائد بھارتی نیم فوجی اہلکاروں کو ہلاک کیا تھا، جس نے ایٹمی قوت کے حامل حریفوں پاکستان اور بھارت کو ممکنہ جوہری جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا تھا۔ 

پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے قومی سلامتی کے اداروں نے کشمیر میں بڑے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا، جس کے دوران گھر گھر تلاشی کے بعد عسکریت پسندوں کے سینکڑوں اہلِ خانہ، مبینہ حامیوں اور ہمدردوں کو حراست میں لیا گیا۔ حملے کے بعد بھارتی فوجیوں اور عسکریت پسندوں کے درمیان کم از کم نصف درجن خونی جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔

ڈار اور دیگر عسکریت پسند نوجوانوں کے والدین، مقامی رہنماؤں اور سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے طاقت کے استعمال نے مقامی افراد میں غصے کو جنم دیا ہے جو ان کی انتہا پسندی اورعسکریت پسندی کی جانب راغب ہونے کی بڑی وجہ ہے۔

آزادی یا ’شہادت‘

جنوبی کشمیر کے قصبے کلگام میں بند دکانوں اور دیواروں پر ’آزادی‘ کے نعرے درج ہیں، جبکہ تنگ گلی کے آخر میں ’شہدا‘ قبرستان ہے جس میں عسکریت پسند مدفون ہیں۔

یہ واضح ہے کہ کشمیری اب آزادی یا ’شہادت‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

بھارتی افواج کتنی ذمہ دار ہے؟

ڈار کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ اگر بھارتی فوجی سکول سے واپسی پر اسے تشدد کا نشانہ نہ بناتے تو وہ انتہا پسندی کی جانب مائل نہ ہوتا۔ تب سے ہی اُس نے عسکریت پسند تنظیم میں شمولیت کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

پلوامہ خودکش حملے کے بعد سری نگر میں بھارتی فوج کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل کنول جیت سنگھ ڈھلون نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے انہیں پروپیگنڈا قرار دیا تھا۔

بھارتی فوج میں 20 سال خدمات انجام دینے والے جنرل (ر) سید عطا حسین کے مطابق مقامی افراد کا عسکریت پسندی کی جانب مائل ہونا ان کے نزدیک چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ 1980 اور 1990 کی دہائیوں میں پیدا ہونے والی کشمیری نسل نے خونریز جھڑپوں کا مشاہدہ کیا تھا مگر موجودہ نسل بدتر حالات سے گزر رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا