طلبہ سراپا احتجاج: ’جب انٹرنیٹ ہی نہیں ہوگا تو میں کلاس کیسے لوں گا‘

انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے پر پاکستان بھر میں طلبہ آن لائن کلاسوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔ پنجاب کے طلبہ نے بھی منگل کو ایک مظاہرے میں ان کلاسوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

ملک بھر میں طلبہ کا انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کے باوجود یونیورسٹیوں کی جانب سے آن لائن کلاسوں کے انقعاد کے خلاف احتجاج جاری ہے جس میں لاہور کے طلبہ بھی شامل ہیں۔

ملک میں کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حکومت نے سکول کالجز بند کر کے انٹرنیٹ کے ذریعے آن لائن کلاسوں کا حکم دیا۔ تاہم مختلف یونیورسٹیوں اور کالجز کی جانب سے آن لائن کلاسیں دینے کا آغاز ہوتے ہی طلبہ کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے انٹرنیٹ سہولت نہ ہونے پر طلبہ کا ردعمل سامنے آیا جس میں ان کلاسوں کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا، تاہم حکومت کی جانب سے طلبہ کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ نہ دی گئی۔

سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کی کال پر مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔

منگل کو لاہور میں پریس کلب کے سامنے احتجاج کرنے والے طلبہ کا کہنا ہے کہ ایک طرف بیشتر طلبہ انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے پر آن لائن کلاسیں نہیں لے پا رہے۔ تو دوسری جانب یونیورسٹیوں اور ہوسٹلوں کی فیسیں بھی باقائدگی سے ادا کرنا پڑ رہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مظاہرین کے مطالبات کی فہرست یوں ہے۔

1۔ بلوچستان، قبائلی اضلاع، گلگت بلتستان، کشمیر اور پورے ملک میں معیاری انٹرنیٹ فراہم کیا جائے۔

2۔ مفت انٹرنیٹ اور تمام آلات (لیپ ٹاپ، سمارٹ فون) کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔

3۔ ستر فیصد فیس کم کی جائے سرکاری و نجی ہاسٹلز کی فیس معاف کی جائے۔

4۔ تمام یونیورسٹیوں میں آن لائن کلاسز کے نظام کو بہتر اور مؤثر بنایا جائے۔

5۔ جو طلبہ آن لائن کلاسز نہیں لے سکے ان تمام کو اگلے سمسٹر میں پرموٹ کیا جائے۔

6۔ یہ مطالبات پورے ہونے تک آن لائن کلاسز کو منسوخ اور امتحانات کو ملتوی کیا جائے۔

7۔ ہم پنجاب کی سرکاری یونیورسٹیوں کے قانون میں ہونے والی ترامیم اور افسرشاہی کے نظام کو مکمل طور پر رد کرتے ہیں اور ہم اداروں میں جمہوریت اور طلبہ یونینز کی بحالی کا مطالبہ کرتے ہیں۔

8۔ ہم حالیہ پیش کیے گئے بجٹ کی پر زور مذمت کرتے ہیں جو ہمارے تعلیمی مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ڈی پی کا پانچ فیصد حصہ تعلیم کے لیے مختص کیا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس