پاکستان کو کون سی تبدیلی چاہیے؟

اگر کسی کا خیال ہے کے سیاستدانوں کی بے عملی اور عوام کی ان سے مایوسی غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار پر قبضے کا جواز بنے گی تو وہ تباہی کا راستہ ہوگا۔

فواد چوہدری اپنے ایک حالیہ انٹرویو کی وجہ سے مشکل میں ہیں (انڈپینڈنٹ اردو)

اپریل 2019 میں آپ کو پیغام بھیجا تھا جس کا عنوان تھا عمران خان کی ناکام کپتانی کی وجوہات۔ پھر نومبر میں آپ کو ایک پیغام بھیجا جس کا عنوان تھا غیرسنجیدہ لوگوں کی راجدھانی۔

وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اب لوگوں کو جو بتایا ہے وہ میں آپ کو پچھلے دو سال سے بتا رہا ہوں۔ مجھے اس بات کی خوشی نہیں کہ بات سچ نکلی بلکہ اس بات کا غم ہے کہ بات غلط نکلتی تو ملک کا بھلا ہو جاتا۔

کسی کامیاب اصلاحی رہنما میں کچھ صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے جن میں سے تین انتہائی اہم ہیں ۔ ایک مردم شناسی، دوسرے جذباتی ٹھہراؤ اور تیسرا مختلف قابل مگر پرعزم لوگوں کے درمیان مقابلے کی فضا کو مثبت انداز میں قائم رکھنا۔ وزیر اعظم میں یہ تینوں صلاحیتیں موجود نہیں ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے حصار سے نکل نہیں پاتے۔ اپنے علاوہ ان کے سامنے سب دوسرے درجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ دوسرے تاریخی لیڈروں میں انا پرستی نہیں تھی لیکن انہیں معلوم تھا کہ ان کی ٹیم کی کامیابی ان کی اپنی کامیابی تصور کی جائے گی۔ انہیں اس بات کا خوف نہیں تھا کہ کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا۔ خان صاحب ہر وقت اس خوف میں مبتلا رہتے ہیں کہ کوئی اور ان سے آگے نہ نکل جائے۔

الیکشن سے بہت پہلے ہی میں نے کئی دفعہ یہ بات کہی کہ جو آدمی اپنی پارٹی نہیں چلا سکتا اس کے ذمہ پورے ملک کی حکمرانی دینا تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ فواد نے اب محض اس بات کی تصدیق کر دی ہے۔

عمران خان کی سب سے اہم صلاحیت مارکیٹنگ ہے۔ اگر میں آج اپنی کابینہ ترتیب دیتا تو عمران خان کا نام وزیر اطلاعات کے لیے سرفہرست ہوتا۔ ان کی حکومت قائم ہی اس وجہ سے ہوئی کہ انہوں نے بہت کامیابی سے اپنے بارے میں ایک ایماندار مسیحا کا تاثر عوام کے ذہنوں میں پیدا کیا۔ آپ دیکھیں کہ ان کی نظر میں ہر مسئلے کا حل مارکیٹنگ یا مواصلات ہے۔

کشمیر ایک تقریر اور پروپیگنڈے سے آزاد ہو جائے گا۔ کرونا کے دور میں اگر لاک ڈاؤن نہ کرنے کی اچھی مارکیٹنگ ہوتی تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔ معیشت کے بارے میں اگر کچھ بیرونی اخبارات میں اچھی رپورٹنگ ہو جائے تو سب اچھا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا ابھی پچھلے ہفتے معاشی سروے انہیں تحفے والی پیکنگ میں پیش کیا گیا۔ ڈرون پر ایک اچھا لانگ مارچ ہو جائے تو امریکہ پیچھے ہٹ جائے گا۔ مارکیٹنگ اتنی شاندار تھی کہ الیکشن جیتنے سے بھی پہلے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم نے قوم میں یہ تاثر پھیلا دیا تھا کہ عمران خان دنیا کے لیڈروں میں اوبامہ، پوٹن اور اینگلا مرکل سے بھی کئی درجے اوپر ہیں۔ یعنی اگر وہ وزیر اعظم بن جائیں تو ملک کا وقار بلند ہوگا۔

ابھی کل ہی کسی پی ٹی آئی کے جیالے نے وٹس ایپ پر بین الاقوامی ٹائم میگزین کی کور فوٹو بھیجی، جس کے نیچے لکھا تھا کہ عمران خان حزب اختلاف، میڈیا، غربت، معیشت، کرونا (کورونا) اور ناکارہ نوکر شاہی سے عوام کے لیے لڑ رہا ہے۔

یعنی دو سال کی ناقص کارکردگی کی ذمہ داری خان صاحب پر نہیں ہے بلکہ دوسرے اس کے ذمہ دار ہیں جو ان کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ اگر یہ رکاوٹیں ہٹ جائیں تو خوش حالی ہی خوش حالی۔ فسطائی رجحانات اسی قسم کی سوچ سے جنم لیتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال کو بہتری کی طرف کیسے لے جایا جائے؟ مسلم لیگ ن نے ایک دفعہ پھر قومی حکومت کی باتیں شروع کر دی ہیں چاہے خان کو ہٹا کر وزیر اعظم پی ٹی آئی سے ہی ہو۔ ان کے ایک یو ٹیوبر نے یہاں تک کہا کہ شاہ محمود قریشی کے نام پر مسلم لیگ ن نے اعتماد کا بھی اظہار کیا ہے۔ اسد عمر کا نام بھی متوقع وزیر اعظم کے طور پر لیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مولانا فضل الرحمٰن اور سردار اختر مینگل کے درمیان اتحاد کی بھی خبریں ہیں۔ پہلے وہ بلوچستان میں حکومت بنانے کی کوشش کریں گے اور دوسرے مرحلے میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جہانگیر ترین نے بھی اپنا حصہ ڈالا اور یہ بیان داغ دیا کے اس دفعہ سردار اختر مینگل نے اتحاد سے رخصت عارضی نہیں لی ہے بلکہ ان یہ مستقل دوری ہے۔ پی پی پی ہر دوسرے دن نیا وزیر اعظم مانگ رہی ہے۔ ان تمام واقعات کو فواد چوہدری کے انٹرویو سے تقویت ملی اور ماحول گرم ہو گیا۔

لیکن میرے ذہن میں اب بھی کئی سوالات ہیں۔ عمران خان کی جگہ کسی اور وزیر اعظم کے آنے سے مسائل کیسے حل ہوں گے؟ سیاسی پارٹیوں کے پاس ایسی کیا گیدڑ سنگی ہے کہ جب وزیر اعظم بدل جائے گا تو مسائل کا حل فورا مل جائے گا؟ میں آج بھی چہرے بدلنے کو مسائل کا حل نہیں سمجھتا۔

سلیکٹرز اور سیاسی پارٹیاں دونوں ہی اپنے تنگ نظر مفادات سے اٹھ نہیں پا رہیں۔ میں اس وقت قومی حکومت کے بھی خلاف ہوں اور تحریک عدم اعتماد کے بھی اور اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھاؤں گا۔

میں اب بھی یہ تجویز کرتا ہوں کہ سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں قومی سیاسی مذاکرات کی میز پر جمع ہوں جہاں پہلا سوال یہ ہو کہ اصلاحات کی تیاری اور نفاذ تک حکومت کیسے چلائی جائے۔ جماعت اسلامی، ایم کیو ایم اور قومی وطن پارٹی کے لیڈروں نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ قومی سیاسی مذاکرات کو اہم سمجھتے ہیں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے چند رہنماؤں نے بھی اس کی حمایت کا یقین دلایا ہے مگر شریف اور بھٹو خاندانوں کی سوچ کا ابھی کچھ پتہ نہیں ہے۔ دوسری سیاسی پارٹیوں سے بھی رابطہ قائم کرنے کی کوشش جاری ہے۔

تمام پارٹیوں کے اتفاق سے مجھے یقین ہے کہ ہم ایک دور رس اصلاحی ایجنڈے کو باعمل بنا سکتے ہیں۔ سلیکٹرز کو اس عمل کی نہ صرف حمایت کرنی ہوگی بلکہ اس بات کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ اس نازک مرحلے پر کوئی اندرونی اور بیرونی طابع آزما ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس اب کوئی راستہ بچا نہیں ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ سیاستدانوں کی بے عملی اور عوام کی ان سے مایوسی غیر جمہوری قوتوں کے اقتدار پر قبضے کا جواز بنے گی تو وہ تباہی کا راستہ ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ