مسلمانوں اور یہودیوں میں ’جان بوجھ‘ کر کرونا پھیلانے کا انکشاف

برطانیہ میں انسداد انتہا پسندی کے کمیشن کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے کارکن اور نیو نازی گروپ وبائی مرض کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

ایک نیو نازی گروپ نے مسلمانوں کو دیے جانے والے صحت کے مشوروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’امید ہے کہ وہ اس نوٹس کو نظرانداز کریں گے۔

ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ نیو نازی اپنے پیروکاروں کو جان بوجھ کر یہودیوں اور مسلمانوں کو کرونا (کورونا) وائرس سے متاثر کرنے کی طرف راغب کر رہے ہیں کیوں کہ انتہا پسند وبائی مرض کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

برطانیہ میں انسداد انتہا پسندی کے کمیشن کی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کے تمام گروہ نفرت پھیلانے اور دنیا کے بارے میں اپنے سازشی مفروضوں کو فروغ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

جمعرات کو شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ہم نے برطانیہ کے انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں اور نیو نازی گروپوں کی ایسی رپورٹس سنی ہیں جن میں وہ یہودی برادری سمیت دیگر گروہوں کو جان بوجھ کر کرونا وائرس سے متاثر کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اقلیتوں کے خلاف بیانات کو فروغ دیتے ہیں۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وہ (نیو نازی) یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ’اسلام پسند جمہوریت مخالف اور مغرب مخالف جذبات رکھتے ہیں اور وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کووڈ 19 مغرب میں اللہ کی طرف سے ان کے مبینہ ’گناہوں‘ کے لیے خدائی سزا ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق: ’اسلام پسندوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ اویغور مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھنے کی وجہ سے کرونا وائرس کی صورت میں چین کو سزا دی گئی ہے۔ دیگر سازشی مفروضوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ وائرس یہودی سازش کا ایک حصہ ہے یا اس میں 5G کو قصوروار ٹھہرایا گیا ہے۔‘

دی انڈپینڈنٹ نے ایسے انتہائی دائیں بازو کے گروپس کے سوشل میڈیا چینلز پر متعدد ایسی پوسٹس دیکھی ہیں جن میں وہ برطانیہ میں کرونا وائرس سے سیاہ فام اور دیگر نسلی اقلیتوں کی زیادہ اموات کی اطلاعات پر خوشی مناتے ہیں۔

ایک نیو نازی گروپ نے مسلمانوں کو دیے جانے والے صحت کے مشوروں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا: ’امید ہے کہ وہ اس نوٹس کو نظرانداز کریں گے۔‘

دوسرے گروپوں نے اس وائرس کو پھیلانے کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کرتے ہوئے جعلی فوٹیجز شیئر کی ہیں جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسلمانوں نے لاک ڈاؤن قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی عبادت گاہوں کو کھول رکھا ہے۔

انسداد انتہا پسندی کے کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں اور ویب سائٹس نے اس وبا کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وسیع پیمانے تارکین وطن کے خلاف اپنے مقبول پیغام کو آگے بڑھایا ہے جس سے نسلی یا مذہبی طبقات کے خلاف عدم رواداری اور نفرت کو فروغ ملا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’پریکٹیشنرز نے ہمیں بتایا ہے کہ کچھ اسلام پسند کارکن جان بوجھ کر مختلف کمیونٹیز اور برطانوی ریاست کے مابین دوری پیدا کرنے کے لیے سکیورٹائزیشن کے بارے میں پائے جانے والے جائز تحفظات سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دوسروں نے لاک ڈاؤن کے دوران انسداد انتہا پسندی کے اہم امور کے دوران پیش آنے والی مشکلات کے بارے میں ہمیں بتایا۔‘

ااس وقت یہ تشویش بھی لاحق ہے کہ لاک ڈاؤن نے لوگوں کو بنیاد پرستی کا شکار بنا دیا ہے کیونکہ وہ زیادہ وقت آن لائن گزارتے ہیں اور زیادہ تنہا ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’جب لاک ڈاؤن کی پابندیوں کو آہستہ آہستہ نرم کیا جا رہا ہے تو زندگی کو معمول پر لوٹنے کے لیے کچھ وقت لگے گا۔‘

مزید کہا گیا: ’کرونا وائرس کے قلیل اور طویل مدتی اثرات انتہا پسندی کے لیے سازگار حالات پیدا کرسکتے ہیں۔ شدت پسند برطانیہ میں مزید طویل مدتی عدم استحکام، خوف اور تقسیم کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ اس وبائی بیماری کے سماجی و اقتصادی اثرات سے شدت پسندی بڑھنے کا خطرہ موجود ہے۔‘ 

انسداد انتہا پسندی کے لیے قائم کمیشن نے حکومت کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کمپنیوں سے بھی کارروائی  کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک تحقیق کے بعد پتہ چلا ہے کہ جب جب شدت پسندی کی اطلاع دی گئی ہے تو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے غلط معلومات پر مشتمل 90 فیصد پوسٹوں کو نہیں ہٹایا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت کو فوری طور پر انسداد انتہا پسندی کی نئی حکمت عملی وضع کرنی چاہیے جس میں ’نفرت انگیز انتہا پسندی‘ کی ایک مجوزہ نئی تعریف پر روشنی ڈالی جائے اور اسے روکنے کی کوشش کی جائے۔

لیڈ کمشنر سارہ خان نے بھی سازشی مفروضوں کی ان سے ہونے والے نقصان کے مطابق درجہ بندی کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے پہلے کہ یہ مفروضے نقصان، تقسیم یا نسلی نفرت پیدا کریں، ان کو چیلنج کیا جانا چاہیے۔

سارہ خان نے مزید کہا: ’مثال کے طور پر ویکسین کے خلاف سازشی مفروضوں کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے سے حکومت بہتر طور پر یہ یقینی بنا سکے گی کہ آئندہ کسی بھی ویکسین مہم کو کیسے کامیاب بنانا ہے۔‘ 

’انہوں نے مزید کہا: ’ہمیں ان نفرت انگیز انتہا پسندوں کی سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے جو ہر اس چیز کو تقسیم اور کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے لیے ہمارا ملک کھڑا ہے اور ہمیں اب اس پر کام شروع کرنا ہوگا۔‘

سارہ خان نے وزرا سے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ وہ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے دہشت گردی کے موجودہ قوانین میں موجود خامیوں کو دور کرنے کے لیے اقدامات کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتی پالیسی میں مکمل اور فوری طور پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

اس سے قبل انہوں نے انتہا پسندی کی موجودہ تعریف کو بہت وسیع قرار دیتے ہوئے حکومت کے رد عمل کو کمزور اور ناکافی قرار دیا تھا۔

گذشتہ ماہ اس قانون میں پائے جانے والے خدشات کا قانونی جائزہ لیا گیا تھا جس کی وجہ سے انتہا پسند اپنا ایجنڈا آگے بڑھا سکتے ہیں اور معاشرے کو تقسیم کر سکتے ہیں۔

انسداد دہشت گردی کے سابق سربراہ سر مارک راولی اس انکوائری کی قیادت کر رہے ہیں، جس میں اس بات کا جائزہ لیا جائے گا کہ آیا موجودہ قانون سازی نفرت انگیز انتہا پسندی کا مناسب طور پر سدباب کرتی ہے یا نہیں۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا