لاہور میں جرائم کی شرح دوسرے بین الاقوامی شہروں سے کم؟

اعداد وشمار کے مطابق رواں سال لاہور میں سنگین نوعیت کے جرائم میں 25 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، تاہم پولیس کا دعویٰ ہے کہ آبادی کے لحاظ سے لاہور جن غیر ملکی شہروں کے برابر ہے، ان کے مقابلے میں یہاں جرائم کی شرح کم رہی ہے۔

پنجاب میں بھی  دیگر صوبوں کی طرح تھانوں میں کارکردگی بہتر ظاہر کرنے کے لیے کئی درخواستوں پر مقدمات درج نہ کرنے کی روایت برقرار ہے۔(تصویر: اے ایف پی)

کرونا (کورونا) وائرس کی وبا کے دوران لاک ڈاؤن سے دنیا بھر کی طرح پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں بھی معاشی صورت حال خراب ہوئی اور دارالحکومت لاہور سمیت صوبے کے شہری علاقوں میں جرائم کی شرح غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی۔

محکمہ پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق رواں سال معمول کے مقابلے میں سنگین نوعیت کے جرائم میں 25 فیصد تک اضافہ ہوا ہے، جن میں ڈکیتی اور رہزنی کی وارداتوں کی شرح زیادہ رہی۔

تاہم کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر(سی سی پی او) لاہور ذوالفقار حمید کا دعویٰ ہے کہ ابھی تک لاہور آبادی کے لحاظ سے جن غیر ملکی شہروں کے برابر ہے، ان کے مقابلے میں یہاں جرائم کی شرح کم رہی ہے جبکہ پنجاب پولیس دیگر ممالک کے بڑے شہروں سے وسائل بھی کم رکھتی ہے۔

صوبے میں سنگین جرائم میں کتنا اضافہ ہوا؟

پنجاب پولیس کی تیار کردہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ رواں سال کے چھ ماہ میں سنگین نوعیت کے جرائم میں پچیس فیصد اضافہ ہوا جن میں لاک ڈاؤن کے بعد شرح زیادہ رہی۔

پولیس رپورٹ کے مطابق 2019 کے پہلے چھ ماہ میں سنگین نوعیت کے نوہزار سات سو اٹھاسی مقدمات درج ہوئے جبکہ رواں سال میں چھ ماہ کے دوران 11 ہزار چارسو باون مقدمات درج کیے گئے۔

اسی طرح رواں سال میں چھ ماہ کے دوران 18سو اڑتالیس قتل، جبکہ گذشتہ سال اٹھارہ سو 22 افراد کوقتل کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سال چھ ماہ کےدوران اندھے قتل کی 227 جبکہ 2019 کے اسی دورانیے میں 186 وارداتیں ریکارڈ ہوئیں۔

ڈکیتی مزاحمت پر قتل میں دیگر شہروں کی نسبت لاہور پہلے نمبر پر رہا۔ جہاں 16 شہریوں کو قتل کیا گیا۔ گذشتہ سال لاہور میں  سال کے پہلے چھ ماہ کے دوران چار افراد کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کیا گیا تھا۔

رواں سال ڈکیتی اور راہزنی کی نو ہزار دو سو 73 جبکہ گذشتہ سال سات ہزار چھ سو80 وارداتیں ریکارڈ ہوئیں۔

اسی طرح رواں سال چھ ماہ میں گینگ ریپ کے 86 واقعات جبکہ 2019 میں 85 واقعات ریکارڈ ہوئے۔

واضع رہے کہ پنجاب میں دیگر صوبوں کی طرح تھانوں میں کارکردگی بہتر ظاہر کرنے کے لیے کئی درخواستوں پر مقدمات درج نہ کرنے کی روایت برقرار ہے۔

جرائم میں اضافے کی وجوہات اور روکنے کے اقدامات

کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر(سی سی پی او) لاہور ذوالفقار حمید نے کہا کہ پنجاب میں جرائم کی شرح اگرچہ رواں سال کے چھ ماہ میں خاص طور پر لاک ڈاؤن کے بعد بڑھی ہے، لیکن اس کی وجہ آبادی میں اضافہ اور کرونا وبا کے دوران معاشی بحران ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کے اس سوال پر کہ کس طرح کے جرائم میں معمول سے زیادہ اضافہ ہوا؟ انہوں نے جواب دیا کہ ڈکیٹی چوری اور رہزنی کی وارداتوں میں زیادہ اضافہ ہوا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس ریکارڈ کے مطابق جرائم کی شرح کم ہوسکتی ہے کیونکہ دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں بھی اس طرح کی وارداتوں کے مقدمات کا اندراج نہ ہونا معمول ہے جو کہ افسوسناک ہے۔ 'لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہر طرح کے جرائم کا مقدمہ درج کرنا زیادہ مناسب رہتا ہے، اس طرح جرائم روکنے کے اقدمات بہتر ہوسکتے ہیں۔'

انہوں نے کہا کہ لاہور شہر سوا کروڑ آبادی کا شہر ہونے کے باوجود دنیا کے دیگر بڑے شہروں کی نسبت زیادہ پرامن اور سنگین جرائم کی شرح میں بھی بہت پیچھے ہے۔ 'اگر نیویارک، لندن، بمبئی، شکاگو یا دہلی کا کرائم ریٹ دیکھا جائے تو وہ لاہور سے بہت زیادہ ہے۔'

انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح کے خطرناک جرائم ان شہروں میں ہوتے ہیں اور منظم گینگز پائے جاتے ہیں، ویسا نیٹ ورک ابھی تک یہاں نہیں پایا گیا۔

سی سی پی او کے مطابق یہاں پہلے کی نسبت جرائم میں اضافہ فطری ہے، لیکن اتنا خطرناک نہیں کہ قابو نہ پایا جاسکتا ہو۔

ان کے خیال میں پنجاب اور لاہور میں ہونے والے جرائم میں ملوث زیادہ تر ملزمان کو پکڑ لیا جاتا ہے۔

ذوالفقار احمد نے کہا: 'وارداتوں میں لاکھوں روپے تک لوٹنے کی وارداتیں ہیں لیکن ان کی تعداد زیادہ نہیں جبکہ کوئی بہت بڑی ڈکیٹی یا چوری کی منظم واردات نہیں ہوئی اور نہ ہی لاہور میں کوئی منظم ڈکیٹ گینگ کام کرتا ہے۔'

انہوں نے کہا کہ پنجاب پولیس اپنے وسائل کے مطابق جرائم پر قابو پانے میں کافی حد تک کامیاب ہے جبکہ باقی ممالک کی نسبت یہاں عوام خود بھی کئی بار واردات کرنے والوں کو پکڑ لیتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان