عدالت کلبھوشن یادو کے لیے وکیل مقرر کرے: حکومت پاکستان

سیکریٹری قانون کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست کا مقصد عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کرنا ہے۔

پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ کلبھوشن یادو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے اور انہیں مارچ 2016  میں بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا گیا تھا (اے ایف پی)

جاسوسی کے الزام میں قید بھارتی شہری کلبھوشن یادو کی سزا کے حوالے سے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرکے استدعا کی ہے کہ عدالت کلبھوشن کے لیے قانونی نمائندہ مقرر کرنے کا حکم دے تاکہ پاکستان کی ذمہ داری پوری ہو۔

وفاق کی جانب سے سیکرٹری قانون کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ 'کلبھوشن یادو نے سزا کے خلاف درخواست دائر کرنے سے انکار کیا ہے جبکہ وہ بھارت کی معاونت کے بغیر پاکستان میں وکیل مقرر نہیں کر سکتے۔'

سیکرٹری قانون نے مزید کہا کہ 'بھارت بھی صدارتی آرڈیننس کے تحت سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے۔'

درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکرٹری دفاع اور جج ایڈووکیٹ جنرل برانچ جی ایچ کیو کو فریق بنایا گیا ہے۔

 واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے رواں برس 20 مئی کو صدارتی آرڈیننس جاری کیا تھا، جس کے تحت عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مطابق کلبھوشن یادو کو اپنی سزا کے خلاف اپیل کا حق دیا گیا ہے، لیکن حکومت پاکستان کے موقف کے مطابق کلبھوشن یادو نے رحم کی اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

صدارتی آرڈیننس کے مطابق بھارتی حکومت کے پاس 60 دن تھے، جس کے دوران اسے کلبھوشن یادو کے انکار کے باوجود ازخود وکیل مقرر کرکے رحم کی اپیل دائر کرنے کا اختیار تھا، جو انہوں نے نہیں کی۔

اس ضمن میں بھارتی ہائی کمیشن کے حکام نے پاکستان دفتر خارجہ کے تعاون سے کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی حاصل کی اور 16 جولائی کو بھارتی ہائی کمیشن کے دو اعلیٰ افسران نے کلبھوشن یادو سے دو گھنٹے طویل ملاقات کی، لیکن بھارتی موقف کے مطابق بھارتی سفارت خانے کے حکام کو مشروط ملاقات کرائی گئی۔

بھارتی حکومت نے کہا کہ ملاقات کے وقت پاکستان حکام قریب موجود رہے، جس پر بھارتی سفارت کاروں نے پاکستانی حکام سے احتجاج کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارتی حکام نے مزید دعویٰ کیا کہ 'ملاقات کیمرے میں ریکارڈ بھی کی گئی اور اس دوران کلبھوشن یادو دباؤ کا شکار لگ رہے تھے، جس کی وجہ سے وہ اپیل کے لیے کلبھوشن کی تحریری رضامندی نہیں لے سکے۔'

دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بیان دیا تھا کہ 'بھارت کے دو سفارت کاروں کو کلبھوشن یادو تک قونصلر رسائی دی گئی، اس دوران وہ کہتے رہے کہ مجھ سے بات کریں، لیکن بھارتی سفارت کاروں کا رویہ حیران کن تھا۔'

وزیر خارجہ شاہ محمودقریشی نے مزید کہا تھا کہ 'بھارتی سفارت کاروں کو درمیان میں شیشے پر اعتراض تھا، جسے ہٹا دیا گیا۔ سفارت کاروں نےآڈیو اور ویڈیو ریکارڈنگ پر اعتراض کیا وہ بھی نہیں کی۔ بھارتی سفارت کاروں کی تمام خواہشات پوری کیں پھر بھی وہ چلےگئے۔'

کلبھوشن یادو کون ہیں؟

پاکستانی حکام کے مطابق بھارتی نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادو کو پاکستان میں مارچ 2016 میں بلوچستان کے علاقے ماشخیل سے گرفتار کیا گیا تھا۔

 پاکستانی فوج کی جانب سے کلبھوشن یادو کو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر اور بھارتی خفیہ ادارے ’را‘ کا ایجنٹ بتایا گیا تھا۔

حراست کے چند ہی روز بعد پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادو کا زیر حراست اعترافی بیان ویڈیو کی صورت میں جاری کیا گیا اور بلوچستان حکومت نے دہشت گردی کی دفعات کے تحت ان کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی۔

اپریل 2017 میں کلبھوشن یادو کو فوجی عدالت نے ملک میں جاسوسی کا مجرم قرار دیا اور 10 اپریل کو انہیں سزائے موت سنائی گئی، جس کے بعد بھارت یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف لے گیا۔

 گذشتہ برس فروری میں عالمی عدالت انصاف میں کیس کی سماعت ہوئی اور جولائی میں فیصلہ آیا، جس کے مطابق عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی رہائی اور واپسی کی بھارتی درخواست مسترد کردی جبکہ کلبھوشن کی پاکستان کی فوجی عدالت سے سزا ختم کرنے کی بھارتی درخواست بھی رد کردی گئی۔

دوسری جانب عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ کلبھوشن  یادو کو قونصلر رسائی دے کر انہیں دی جانے والی سزا پر بھی نظرثانی کرے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان