ہمارا اللہ ہے یا پھر ریموٹ کنٹرول

ہوسکتا ہے کہ بھارت نواز رہنماؤں کے فرماں بردار کارکن اپنے رہنماؤں کی گرفتاری پر احتجاج بھی کرتے مگر حکومت کی شدید پابندیوں، سختیوں اور زبردستیوں نے انہیں آواز بھی نہیں نکالنے دی۔

عمر عبداللہ رہائی کے بعد سے گھر پر ہیں اور انہوں نے پانچ اگست کے بھارتی فیصلے پر تاحال کوئی بیان نہیں دیا(اے ایف پی)

پانچ اگست کے بعد پہلی بار بھارت نواز بعض کشمیری رہنماؤں کے انٹرویو یا بیان میڈیا پر آنے لگے ہیں۔

ایک صحافی کے بقول ’بھارتی حکومت نے اپنے حواریوں کے ذریعے پیغامات دینے کا عمل دوبارہ شروع کیا ہے۔ ان کی سوچ اور نظریہ کبھی تبدیل نہیں ہوگا اور عوامی حلقوں میں ان کو ذلیل کرنے کے باوجود بھارت کے پاس پھر یہی چند مہرے بچے ہیں، جن کو عالمی برادری کے دباؤ سے لے کر اندرونی مزاحمت کو ختم کرنے میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اب ان رہنماؤں کی نئی نسل کو اگلی صدی کی سیاست چلانے کی تربیت دی جا رہی ہے۔‘

یہ تحریر آپ یہاں مصنفہ کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 

بھارتی عوام پر کشمیری رہنماؤں کی باتوں کا اب کتنا اثر پڑتا ہے؟ یہ بات اہمیت کی حامل نہیں ہے لیکن جموں و کشمیر کے ایک کروڑ 20 لاکھ عوام ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حفیظ الدین عمر عبداللہ اور ان کی جماعت نیشنل کانفرنس کے دیرنیہ کارکن رہے ہیں۔ چند ماہ پہلے انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ’فاروق عبداللہ صاحب اور عمر صاحب کو رہا ہونے دیں تو مودی کو پتہ چلے گا کہ اگر ہم نے بھارت کی پارلیمان کو نہ ہلایا تو میرا نام بدل دینا۔ جموں و کشمیر کو ذاتی جاگیر سمجھ رکھا ہے یا گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں کہ جو دہلی میں بیٹھ کر اس کا فیصلہ کریں گے۔‘

عمر عبداللہ کئی ماہ پہلے رہا ہوچکے ہیں، تب سے گھر میں رہ رہے ہیں۔ پانچ اگست کے بھارتی فیصلے پر کوئی بیان نہیں دیا اور نہ اس کے خلاف کوئی مہم چلانے کا اعلان کیا جس کی توقع کم از کم ان کے کارکن رکھتے تھے۔ چند روز سے میڈیا میں ان کے انٹرویو آ رہے ہیں جن میں انہوں نے کہا کہ وہ جموں و کشمیر کا ریاستی کردار بحال کرنے کی قانونی اور سیاسی مہم چلائیں گے۔

تاہم انہوں نے آرٹیکل 370 یا 35 اے کی بحالی پر خاموشی اختیار کی۔ بیشتر عوامی حلقوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے ایک بار پھر نہ صرف اپنے کارکنوں کے سینے میں چھرا گھونپا بلکہ عوام میں رہی سہی ساکھ کو بھی مٹا دیا۔ میں نے حفیظ الدین سے جب عمر عبداللہ کی رہائی اور انٹرویو کے بارے میں پوچھا تو وہ کافی دباؤ میں نظر آئے۔

کچھ دیر خاموشی اختیار کر نے کے بعد بولے ’اپنی رہائی کے بدلے میں ان لیڈروں نے ہندتوا کا مشن کشمیر میں مضبوط کرنے کا عزم دوہرایا ہے۔ قصور ان کا نہیں جو اپنا ایمان، ضمیر اور غیرت بار بار بیچتے ہیں بلکہ گناہ گار ہم ہیں جو ان کو سروں پر اٹھا کر ان پر اعتماد کرتے آئے ہیں۔ ہمیں پہلے اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنا ہوگا۔ پھر ہمیں اپنی جنگ لڑنے کی حکمت عملی ترتیب دینی ہوگی۔ ہم نے ان کے سہارے بھارت پر اعتماد کیا تھا لیکن جب ہمارے اپنوں نے ہمیں برباد کیا ہے تو بھارت سے کیا گلہ کریں گے۔‘

میں نے جب ان سے پوچھا کہ کیا وہ اب حریت کانفرنس میں شامل ہوں گے تو انہوں نے مجھے فوراً جھڑک دیا اور کہا کہ ’حریت میں کون ہے یہاں جس کے پیچھے ہم بھی چلیں گے؟ نشان امتیاز سے مغلوب ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہمیں ادھر سے بھی آج تک کیا ملا ہے؟ گیلانی صاحب یا دوسرے صاحب ہمارے لیے کیا کرسکتے ہیں جب انہیں یہ بھی علم نہیں کہ ان کا بیان کون دیتا ہے اور کہاں سے جاری ہوتا ہے۔

ہمارے پاس اللہ تبارک و تعالیٰ ہیں۔ اس کے بعد کئی ریموٹ کنٹرول ہیں جن میں اب چین بھی شامل ہوگیا ہے اور سبھی ویڈیو گیمز کی طرح ہمیں پکڑ پکڑ کر مارتے ہیں۔ ہمیں اپنا مشن چلانے کا ہنر سیکھنا ہوگا جو ایک لمبا سفر ہے مگر اس میں رسوا ہونے کا اندیشہ نہیں۔ ہمارے لیے جذبہ حریت کافی ہے اور اسی جذبے کے تحت اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔‘ وہ  جذبات میں بہہ کر آبدیدہ ہوگئے۔

بھارت نواز کشمیری رہنماؤں کو زبردست ملال ہے کہ پانچ اگست  کے بعد عوام ان کے لیے سڑکوں پر نمودار کیوں نہیں ہوئے، احتجاج کیوں نہیں کیا اور گولی کیوں نہیں کھائی؟ اس کی بجائے ان کو پابند سلاسل بنانے پر بیشتر لوگوں نے نہ صرف سوشل میڈیا پر خوشی کا اظہار کیا بلکہ آرٹیکل 370 کو ہٹانے پر دلیل بھی پیش کی کہ بیشتر کشمیریوں کا خواب بھارت سے آزادی ہے بھارت کا آئین نہیں، جس میں آرٹیکل 370 رہے یا نہ رہے ان کے لیے کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

حریت قیادت پر بھارت نواز رہنماؤں نے ہمیشہ یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں اجتجاج، شورش یا ہلاکتوں کی سبب رہی ہے اور ایک اشارے پر فوراً سارا علاقہ سنسان ہو جاتا ہے۔ اگر ان کی جانب سے ہڑتال کی کال دی جاتی ہے۔ چاہے وہ گیلانی ہوں یا یاسین ملک، جو بظاہر کشمیر کے حکمران لگ رہے ہیں اور عوام کے ذہنوں پر چھائے ہوئے ہیں، مگر یہ پوری قیادت گذشتہ چند برسوں سے یا تو جیلوں میں ہیں یا پھر گھروں میں محصور۔

ہڑتال، احتجاج یا آزادی کے نعرے اکثر عوام بلند کرتے ہیں، جو خود کو تحریک آزادی کے کارکن تصور کرتے ہیں۔ اس حقیقت کو جھٹلانے کی بجائے اگر تسلیم کیا جائے تو افہام و تفہیم سے مشکل ترین مسئلہ سلجھ سکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بھارت نواز رہنماؤں نے ہندوستان کی گود میں بیٹھ کر پہلی بار جیل کی سلاخیں دیکھی ہیں، وہ بھی ایسے جیل جو فائیو سٹار ہوٹل سے زیادہ خوب صورت ہیں اور ڈوگرہ مہاراجوں کے خوب صورت مسکن رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھارت نواز رہنماؤں نے آزادی پسندوں کو دبانے کے لیے ہر وہ حربہ آزمایا جس کی تحریر دہلی کے ایوانوں میں لکھی جاتی رہی ہے اور جس کی زد میں افضل گورو بھی آئے جن کے افراد خانہ کو پھانسی سے پہلے آخری بار ان سے ملنے بھی نہیں دیا گیا۔ اب یاسین ملک کو اس فہرست میں شامل کرنے کا انتظام کیا جا رہا ہے اور کوئی اس پر بات بھی نہیں کرتا لیکن یہ لیڈر عوام کی حالیہ خاموشی پر نالاں ہیں۔

ہوسکتا ہے کہ آبادی کا وہ طبقہ جو بھارت نواز رہنماؤں کا فرماں بردار ہے اپنے رہنماؤں کو گرفتار کر کے جیل میں بند رکھنے کے خلاف احتجاج بھی کرتا مگر حکومت کی شدید پابندیوں، سختیوں اور زبردستیوں نے انہیں آواز بھی نہیں نکالنے دی۔

پٹن کے ایک شہری غفار انصاری کہتے ہیں ’اگر ہندوستان نواز رہنماؤں کو گلہ کرنا ہی ہے تو وہ دہلی کے آقاؤں سے کریں نہ کہ عوام سے جو ان کے سیاسی داؤ پیچ کی وجہ سے اپنی شہریت، اپنا پرچم، اپنی جائیداد اور اپنے مسلم کردار سے محروم ہو رہے ہیں یہاں تک کہ وہ اپنی زندگی کو قربان کرنے کے لیے فرضی بندوق بردار بن جاتے ہیں۔‘

بقول ایک نامور برطانوی صحافی ’کشمیریوں کے لیے دو ہی راستے بچے ہیں۔ حصول آزادی کے لیے لڑنا یا بھارت کے ساتھ باقی شہریوں کی طرح رہنا۔ ریاستی کردار واپس حاصل کرنا، اندرونی خود مختاری یا سیلف رول سب بہکاوئے ہیں اور عوام کو بےوقوف بنانے کے نئے حربے ہیں جو بھی لیڈر ان کے حصول کی لڑائی لڑنے کی بات کرے گا وہ عوام کا بڑا دشمن ہوگا اور کشمیری قوم کو متحد ہو کر اس طرح کی سیاسی شعبدہ بازی کو مسترد کرنا پڑے گا ورنہ اگلے 70 سال تک بھارت نواز رہنما ریاستی کردار کے حصول کے نعرے کے بدلے میں اقتدار کی کرسی پر براجمان بیٹھے رہیں گے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ