کشمیر میں اسرائیلی ماڈل پر عمل، اب مستقل جنگ یقینی ہے

جیسے جیسے مودی اور نتن یاہو کی نوآبادکاری پر مبنی پالیسیاں آگے بڑھ رہی ہیں یہ ایک دوسرے کی جانب مدد کے لیے دیکھتے رہیں گے اور دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ جو کر رہے ہیں وہ درست ہے۔

(اے ایف پی)

ہم نے گذشتہ ہفتے برطانوی ٹیلی ویژن کی مشہور شخصیت بیر گرِلز کو نریندر مودی کے ساتھ اپنی تازہ ترین وائلڈ لائف ایڈوینچر ’انسان بمقابلہ جنگل‘ میں دیکھا۔ یہ انوکھا جوڑا کیمروں کے لیے دانت نکالتا رہا اور بھارتی وزیر اعظم سے اس قسط (جس کی ابتدا ہمالیہ کے دامن میں ہوتی ہے) میں کئی معاملات پر سوال پوچھے گئے۔

متوقع طور پر یہ گفتگو مصنوعی اور متکبرانہ تھی۔ ریئلٹی ٹی وی کے اس پروپیگینڈا میں ان لاکھوں مسلمانوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جو اس وقت جموں و کشمیر کے پُرخطر پہلاڑی خطے میں اپنے مستقبل کے حوالے سے خوفزدہ ہیں۔

 لڑاکا کے طور پر بدنام مودی ایک ہندو انتہا پسند ہیں، جنہوں نے جموں و کشمیر کو اس کی خصوصی حیثیت سے محروم کرتے ہوئے وہاں دسیوں ہزاروں اضافی فوجی بھجوا دیے ہیں۔

اس علاقے میں پہلے ہی بھاری تعداد میں فوجی موجود ہیں۔ اختلاف کرنے والوں کو کسی مقدمے کے بغیر گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ رابطوں پر مکمل پابندی اور سخت قسم کا کرفیو اور لاک ڈاؤن جاری ہے۔

مظاہرے کرنے والے کشمیری اپنے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد کی شکایت کرتے ہیں جس میں چھروں کا استعمال بھی شامل ہے جو اندھے پن کا باعث بن سکتے ہیں۔

بھارتی فورسز پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ وہ سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو حراست میں لینے کے علاوہ رات میں چھاپوں کے دوران خواتین کو ہراساں بھی کرتے ہیں۔

بھارت اور پاکستان کشمیر پر اپنا اپنا دعویٰ کرتے ہیں (کشمیر کا کچھ حصہ چین کے زیر انتظام بھی ہے) اور دونوں اس پر جنگیں بھی لڑ چکے ہیں۔ گذشتہ 40 سال کے دوران کشمیر میں حالات کی خرابی کے باعث 70 ہزار افراد ہلاک جبکہ اس سے کہیں زیادہ زخمی ہوئے۔

71 سال سے اس علاقے میں رہنے والے مسلمانوں کی نظر میں اہم خصوصی حیثیت کو ختم کرنا اشتعال انگیزی ہے۔ مودی اس قبضے  کے نتیجے میں غیر کشمیری بھارتی شہریوں کو اس علاقے میں لا کر بسانا چاہتے ہیں تاکہ سالوں سے جاری کشمیر کی آزادی کے خوابوں کو روکا جا سکے۔

اس بربریت پر مبنی کریک ڈاؤن کے دوران گرِلز کے مودی کا پروپیگنڈا ایجنٹ بننے کے عجیب فیصلے نے مودی کی اپنے اسرائیلی ہم منصب بن یامین نتن یاہو سے جاری  شراکت داری کو دھندلا دیا ہے۔

ان دونوں کی پبلسٹی کے لیے جاری ہونے والی تصاویر میں یہ دونوں سمندر کنارے اٹھکیلیاں کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کے دارالحکومتوں کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک دوسرے کی دیوانہ وار تعریفیں کر چکے ہیں۔

مودی نے نتن یاہو کو ٹوئٹر پر کہا: ’میں امید کرتا ہوں ہماری دوستی پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور پختہ ہو گی۔‘

جدید بھارت اور اسرائیل کی تاریخ ایک دوسرے سے بہت ملتی ہیں۔ برطانیہ کے برصغیر سے انخلا کے بعد جولائی 1949 میں پاکستان اور بھارت نے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا اعلان کیا۔ یہ اسرائیل کے قیام کے ایک سال بعد تھا جس میں ہزاروں فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے جبری بے دخل کیا گیا تھا۔ یہ دونوں معاملات مستقل تنازعے کا شکار ہیں۔

اب پاکستان میں حزب اختلاف کے سیاست دان مودی پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ کشمیر کے عالمی فلیش پوائنٹ کو اسرائیل فلسطین جیسی صورتحال میں تبدیل کر رہے ہیں۔ نسل کشی اور قبضے کی تمام علامات رکھنے والا یہ نیا قانون نئی دہلی کی جانب سے زبردستی مسلط کیا جا رہا ہے۔

فلسطین ہی کی طرح ایک بے رحم فوج مغربی طاقتوں کے فراہم کردہ ہتھیاروں کو مخالفین کے خلاف اور کشمیری انتفاضہ کو روکنے کے لیے استعمال کر رہی  ہے۔ 

مودی کی مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے موجود نفرت ان کے انتہا پسند ہندو حامیوں کو کشمیر میں آبادی کا تناسب بدلنے کی اجازت دے گی، بالکل ویسے ہی جیسے قوم پرست انتہا پسند فلسطین میں زمینوں پر غیر قانونی قبضے میں ملوث ہیں۔

یاد رہے مودی بھارتی ریاست گجرات کے وزیرِ اعلیٰ رہے ہیں جہاں 2002 میں تقریباً دو ہزار مسلمانوں کا اجتماعی طور پر قتل عام کیا گیا تھا۔ مشتعل بلوائیوں نے ٹرین کو آگ لگنے اور 58 ہندو یاتریوں کی ہلاکتوں کے ردعمل میں یہ خون ریزی کی۔ ان وحشیانہ حملوں میں خواتین کے ریپ اور ہزاروں مسلمانوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔

جو بھی اسرائیل فلسطین تنازعے میں ہلاکتوں کے اعداد و شمار دیکھے گا اسے گجرات کے ساتھ اس کی مماثلت نظر آئے گی۔ 2014 میں اسرائیل نے دو ہزار سے زیادہ فلسطینوں کو قتل کیا جن میں 850 بچے، خواتین اور معمر افراد بھی شامل تھے۔

گھروں اور ہسپتالوں سمیت متعدد عمارتیں تباہ کر دی گئیں۔ غزہ سے کیے جانے والے حملوں میں اسرائیل میں چھ سویلین (جن میں تھائی لینڈ سے تعلق رکھنے والا ایک فرد بھی شامل تھا) جبکہ 67 فوجی ہلاک ہوئے جس کے بعد اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں داخل ہو گئی تھی۔

 ایسی بے ڈھنگی محاذ آرائی نے کشمیریوں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک مضبوط تعلق پیدا کر دیا ہے، جہاں دونوں طرف کے لوگ خود کو پڑوسی سامراجی ملک کی توسیع پسندانہ عزائم  کا متاثر سمجھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے ہی مودی اور نتن یاہو کے درمیان پیار دکھانے کا مظاہرہ بھارت میں اسرائیل کو ایک بھرپور اتحادی سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ ظلم و زمینی قبضے پر مبنی خیالات کا تبادلہ کیا جا سکتا ہے۔

اسرائیل فلسطینیوں کی مزاحمت کو اسلامی شدت پسندی کا حصہ اور اسے دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے کی کوششوں میں بہت ماہر ہے۔ اسرائیل کے تمام مخالفین قتل عام پر آمادہ دہشت گردوں کے روپ میں دیکھے جاتے ہیں۔ مودی کشمیر کے بارے میں اسی قسم کے خیالات رکھتے ہیں۔ وہ کشمیریوں کو تباہ حال، پسماندہ دشمن سمجھتے ہیں جنہیں وہ برباد کرنا چاہتے ہیں۔

اسی ماہ اپنے ٹیلی ویژن خطاب کے دوران مودی کا کہنا تھا کہ بھارتی آئین کی شقوں 35 اے اور 370 (جو کشمیر کو خصوصی حیثیت دیتے تھے) کو ختم کرنا ضروری تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جموں و کشمیر کو دہشت گردی سے آزاد کروائیں گے۔‘

پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات محدود کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مختصر مدت میں ’فوجی اقدامات پر غور نہیں کر رہا۔‘ لیکن جیسے جیسے کشیدگی بڑھے گی مزید جارحانہ موقف ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔

اسرائیلی ماڈل پر عمل کرنے کے لیے ضروری ہو گا کہ بھارتی سلامتی پالیسی میں جموں کشمیر میں موجود ہندووں کے لیے مخصوص آبادیوں کی ’حفاظت ‘ کی جائے۔ جب کہ اسی دوران بھارت اسرائیل کی طرح اس بیانیے کو ترویج دے گا کہ وہ غیر معمولی جمہوریت ہے جسے مسلم اکثریتی ریاست کا سامنا کرنا ہے۔ اس وحشیانہ بیانیے کا مقصد ایک جابر حکومت کے متاثرین کو ہی جارحیت پسند دکھانا ہے۔

جیسے جیسے مودی اور نتن یاہو کی نوآبادکاری پر مبنی پالیسیاں آگے بڑھ رہی ہیں یہ ایک دوسرے کی جانب مدد کے لیے دیکھتے رہیں گے اور ساتھ ساتھ دنیا کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ درست اور مناسب ہے۔

یہ سفاکانہ شراکت داری دنیا کے ان خطوں میں تنازعات کو مزید بڑھا دے گی جہاں امن پہلے ہی بہت دور دکھائی دیتا ہے۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر