کشمیریوں پر ظلم کی نئی لہر کا ایک سال

اس مسئلے پر پاکستان میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نے ملک میں جو نفرت اور تقسیم کی مہم چلائی ہوئی ہے اس کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ایک متحدہ اور ہم آہنگ قومی ردعمل کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔

لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آیا چند منٹ کی خاموشی سے مسئلہ کشمیر حل ہوسکے گا (اے ایف پی)

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو نازی عقوبت خانہ بنے ہوئے ایک سال ہوا چاہتا ہے۔ لاکھوں کشمیری عوام ایک بہت بڑی جیل میں مقید ہیں جس میں نہ بچے اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی بیمار اور بزرگ اپنی طبی معائنے کے لیے ہسپتال جا سکتے ہیں۔

نہ ہی رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے ملنے دیا جا رہا ہے ہے اور نہ ہی کشمیریوں کو اپنے اوپر ڈھائے جانے والے مظالم کی بپتا سنانے کے لیے انٹرنیٹ میسر ہے۔ کرونا کو جواز بناتے ہوئے بچی کھچی رعایتوں کو بھی سلب کیا جا رہا ہے۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

جموں و کشمیر کی تمام سیاسی قوتوں کو جنہوں نے ماضی میں بھارتی حکومت کا ساتھ دیا یا اسے چیلنج کیا، سبھی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکتے ہوئے بدستور گھروں میں نظر بند رکھا ہوا ہے جس سے بھارتی اقدامات کے خلاف تمام سیاسی قوتوں میں نفرت بڑھتی جا رہی ہے۔ اس سے بھارت نواز کشمیری قیادت کی آنکھیں بھی کھل گئی ہیں۔

بھارتی فوج کے مظالم میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور اس سال کے آغاز سے اوسطاً ہر روز پانچ مکینوں کو ان کے گھروں سے نکال کر، ان کے گھروں کو چشم زدن میں مسمار کر کے انہیں چھت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آٹھ لاکھ بھارتی فوجیوں نے ظلم و ستم کی ایک نئی لہر شروع کی ہے اور صرف پچھلے چھ ماہ میں 148 نہتے کشمیریوں کو ہلاک کیا گیا جبکہ پانچ سو سے زائد کشمیریوں کو اذیت کا نشانہ بناتے ہوئے سخت جسمانی سزائیں دے کر اپاہج بنا دیا گیا۔

اس کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کی عددی اکثریت کو تبدیل کرنے کے لیے باقاعدہ اقدامات بھی شروع ہوگئے ہیں۔ 5 اگست 2019 کے غیرقانونی قدم کے بعد اب غیرکشمیری جموں و کشمیر میں آباد ہو سکتے ہیں اور وہاں پر جائیدادیں بھی خرید سکتے ہیں۔ کشمیریوں کی اکثریت کو ختم کرنے کے لیے اور غیر کشمیری کے لیے جائیداد خریدنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے سول سروس میں نمایاں تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اس وقت جموں و کشمیر میں تمام اعلیٰ سرکاری عہدوں پر غیرکشمیری ہندوؤں کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

اگر ایسا سلوک کسی مسلمان ملک میں غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ ہو رہا ہوتا تو پوری دنیا میں شور و غل مچا ہوتا اور اقوام متحدہ اور دوسرے عالمی ادارے حرکت میں آ چکے ہوتے اور فوجی اقدام تک کے بارے میں سوچا جا رہا ہوتا۔

بھارت کی اس جارحیت پر بین الاقوامی ردعمل ملا جلا رہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا میں اس انسانی سانحہ پر تفصیلی مضامین تو شائع ہوئے اور جموں و کشمیر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بات بھی ہوئی مگر کشمیریوں کے حق خود ارادی کے بارے میں کم ہی آواز اٹھائی گئی۔

بین الاقوامی رہنماؤں نے دبے الفاظ میں کشمیر کے بارے میں بات کی۔ ماسوائے صدر اردغان اور ایرانی روحانی رہنما کے علاوہ کسی مسلمان رہنما نے کھل کر کشمیریوں پر مظالم کی مذمت نہیں کی۔ مشرق وسطی کے اہم مسلمان ممالک کشمیری مسلمانوں پر ظلم وستم بند کرنے کے لیے بھارت پر دباؤ ڈالنے کی بجائے اس سے سیاسی ثقافتی اور معاشی پینگیں بڑھانے میں مصروف نظر آئے۔ صدر ٹرمپ نے ثالثی کے بارے میں بات تو کی لیکن اس سلسلے میں بھارت پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ڈالا۔

البتہ یہ بات خوش آئند ہے کہ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے تین صدارتی امیدواروں جو بائیڈن، برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن نے بھارت پر زور دیا کہ کشمیریوں کے حقوق بحال کیے جائیں گے۔ انہوں نے بھارت میں کشمیر کے بارے میں آئینی تبدیلیوں پر اپنی مایوسی کا اظہار بھی کیا۔ اس سلسلے میں حسب معمول اقوام متحدہ کا کردار بھی انتہائی مایوس کن رہا ہے۔ چونکہ سلامتی کونسل کے مستقل ممبران کے بھارت سے گہرے سیاسی اور معاشی روابط ہیں اس لیے جب چین نے دو بار سلامتی کونسل میں کشمیر کے بارے میں غیر رسمی اجلاس منعقد کرائے تو ان کا بھی کوئی معنی خیز نتیجہ نہیں نکل سکا۔

ہمارے وزیر اعظم نے پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پرزور طریقے سے کشمیر کا مسئلہ اٹھایا مگر بدقسمتی سے اس کا اثر صرف تقریر کے دورانیے تک رہا۔ ہماری حکومت کی ساری توجہ پاکستان میں اپوزیشن کو رگدیدنے اور اس کے گرد گھیرا تنگ کرنے پر مرکوز ہے تو انہوں نے قومی سلامتی کے اس بڑے مسئلے پر اپنی توجہ سوائے تقریروں، کچھ جمعہ کے احتجاجوں، چند منٹ کی خاموشی اختیار کرنے اور کشمیر ہائی وے کا نام بدل کر سری نگر ہائی وے رکھنے تک ہی محدود رکھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بجائے اس کے کہ وزیراعظم اور وزیر خارجہ اہم ممالک کا دورہ کر کے انہیں اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کرتے انہوں نے چند ملکوں کے رہنماؤں کو ٹیلی فون سے بات چیت پر ہی اکتفا کیا۔ اہم سلامتی کے مسائل پر صرف فون کے ذریعے حمایت کی استدعا نہیں کی جاتی اس کے لیے بین الاقوامی رہنماؤں سے ذاتی روابط اور دوستی بنانی پڑتی ہے۔ اس نیم دل کوشش کی وجہ سے موجودہ قیادت اس مسئلے میں وسیع بین الاقوامی ہمدردیاں یا حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ابتدا میں بیرون ملک کشمیریوں کو متحرک کیا گیا مگر اس میں بتدریج کمی آنا شروع ہوئی اور کرونا بحران کی وجہ سے اب یہ مسئلہ بین الاقوامی برادری تقریبا بھول ہی گئی ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان حالیہ عسکری تصادم کی وجہ سے کشمیر کے مسئلے نے اب پھر بین الاقوامی توجہ حاصل کر لی ہے اور ہماری کوشش ہونی چاہیے کے اہم دارالخلافوں میں اس مسئلہ کی سنگینی اور اس خطے میں اس مسئلہ کی وجہ سے امن پر اثرات کا احساس دلایا جائے۔

اس سلسلے میں ایک جامع حکمت عملی ترتیب دی جا سکتی ہے جس کے اہم اجزا میں بین الاقوامی سطح پر موثر اطلاعاتی جنگ، بیرون ملک کشمیری برادری کو متحرک رکھنا، کشمیری مزاحمت کی سیاسی مدد کرنا اور بھارت پر بین الاقوامی دباؤ ڈالنے کے لیے وہاں پر آر ایس ایس جیسی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیم قرار دلوانے کی کوششیں شامل ہونی چاہیں۔ (ان تجاویز کی تفصیل مصنف کے پچھلے سال کے کالم بھارت کو کشمیر میں ناکوں چنے کیسے چبوائے جائیں؟ میں پڑھی جا سکتی ہیں)

ہمارے منصوبہ سازوں کو بھارت کی اس جارحیت کی قیمت بڑھانے کی سیاسی اور قانونی تدابیر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ کشمیر کی عالمی طور پر موثر تشہیر اور پذیرائی بھارت میں دیگر علیحدگی پسند تحریکوں کو بھی تقویت دے گی۔ یہ موجودہ حالات میں مودی حکومت کی سیاسی اور عسکری مشکلات میں اضافہ کرے گی جو انہیں اپنے جارحانہ اقدامات واپس لینے پر سنجیدگی سے غور کرنے پر مجبور کر دے۔

اس مسئلے پر پاکستان میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت نے ملک میں جو نفرت اور تقسیم کی مہم چلائی ہوئی ہے اس کا فوری خاتمہ کیا جائے۔ اس کے بغیر ایک متحدہ اور ہم آہنگ قومی ردعمل کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ