پاکستان میں برفانی چیتوں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہو گئی

برفانی چیتے کے شکار پر پابندی کے باوجود سوشل میڈیا پر اس کے اعضا بالخصوص کھالوں کی غیر قانونی خرید و فروخت جاری ہے۔

تصویر بشکریہ محکمہ جنگلی حیات گلگت بلتستان

پنجاب کے محکمہ جنگلی حیات نے گذشتہ مہینہ شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص لالہ صدیق  کمبوہ سے طویل تحقیقات کیں، کیونکہ  وہ نامعلوم نمبر سے فروخت کے لیے موصول ہونے والی برفانی چیتے (سنو لیپرڈ) کی کھال کی تصاویر واٹس ایپ پر شیئر کر بیٹھے تھے۔   

ماہ رواں کے دوران پاکستان کے شمالی علاقہ گلگت بلتستان کی انتظامیہ نے نایاب برفانی چیتے (سنو لیپرڈ) کی کھال فروخت کرنے کی کوشش ناکام بناتے ہوئے پانچ افراد کو گرفتار کر کے مقامی عدالت کے ذریعے انہیں سزائیں دلوائیں۔ 

برفانی چیتا، جو پاکستان کا قومی شکارخور جانور (پریڈیٹر) ہے، کا شمار بچے جننے اور دودھ پلانے والے (میملز) جانوروں کی اس قسم میں ہوتا ہے جس کی پاکستان میں آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ مندرجہ بالا مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح نایاب اور تیزی سے ختم ہوتے ہوئے برفانی چیتے کے اعضا خصوصا ً کھال کا کاروبار زورو شور سے جاری ہے۔ 

گلگت بلتستان میں محکمہ جنگلی حیات کے ڈویژنل فارسٹ آفیسر جبران حیدر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ برفانی چیتے کے شکار پر پابندی ہے،تاہم بعض مقامی لوگ مختلف کاموں کے لیے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں اور اس دوران برفانی چیتا سامنے آنے کی صورت میں چھپ کر اس کا شکار کرتے ہیں۔ 

ماہرین کے خیال میں برفانی چیتے کے علاوہ پاکستان میں جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام کی آبادی کم ہوتی جا رہی ہے۔جنگلی حیات کے بین الاقوامی اور ملکی اداروں نے جانوروں اور پرندوں کی ایسی کئی اقسام کو شدید خطرے سے دوچار (کریٹیکل انڈینجرڈ)، خطرے سے دوچار (انڈینجرڈ) اور کمزور (ولنرایبل) جیسے گروہوں میں شامل کیا ہے۔ 

برفانی چیتوں کی تعداد 

انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یو سی این) سے منسلک ڈاکٹر سعید عباس کا کہنا تھا کہ پاکستان میں برفانی چیتوں کی آبادی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ گلگت بلتستان کے علاوہ چترال اور کشمیر کی وادیِ نیلم میں پائے جانے والے برفانی چیتے کی آبادی لگ بھگ 150 سے 350 کے درمیان بتائی جاتی ہے۔  

ڈاکٹرسعید عباس نے بتایا کہ یہ اعدادو شمار کسی سائنسی ریسرچ کی بنیاد پر اکٹھے نہیں کیے گئے، یہ محض اندازے ہیں۔ سال 2002۔2003 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق بلتستان میں برفانی چیتوں کی تعداد 100 معلوم ہوئی تھی۔ 

ڈاکٹر سعید نے مزید کہا کہ اگست 2017 میں ہونے والی ایک ریسرچ سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں برفانی چیتوں کی آبادی بہت کم نہیں تھی اور اسی لیے اس کا سٹیٹس خطرے سے دوچار (انڈینجرڈ) قسم سے بہتر کر کے ولنرایبل کر دیا گیا۔   

برفانی چیتے کی بقا کے لیے کام کرنے والے غیر سرکاری ادارے سنو لیپرڈ فاؤنڈیشن نے اس کی تعداد معلوم کرنے کے لیے بھی ایک سروے کیا، جس میں برفانی چیتے کے رہائشی علاقوں کے 25فیصد ایریا میں کیمرے اور جنیاتی تکنیکیں استعمال کی گئیں۔ 

سنو لیپرڈ فاونڈیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنیاتی تکنیک کے استعمال سے ان علاقوں میں صرف نو برفانی چیتوں کی موجودگی کے آثار ملے جبکہ کیمروں کے نتائج نے مزید11 برفانی چیتوں کی موجودگی کے ثبوت فراہم کیے۔ ڈاکٹر سعید  نے کہا کہ برفانی چیتے کی آبادی بہت کم ہونے کے باعث حال ہی میں انہیں دوبارہ شدید خطرے سے دوچار (کریٹیکل انڈینجرڈ) جانوروں کے گروہ میں شامل کر لیا گیا ہے۔ 

تاہم جبران حیدر کا دعویٰ تھا کہ گلگت بلتستان کی حد تک برفانی چیتے کی آبادی اتنی زیادہ کم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ برفانی چیتے کی تعداد اتنی ہے کہ اسے ولنرایبل جانور کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ وفاقی وزارت تبدیلی ماحولیات کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی برفانی چیتے کو کریٹیکلی انڈینجرڈ جانور کہا گیا ہے۔ 

برفانی چیتا کہاں پایا جاتا ہے؟ 

ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ برفانی چیتا جنوبی ایشیا کے کئی ملکوں میں پایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں اس کی تعداد کا اندازہ ڈھائی ہزارہے۔ پاکستان میں اس جانور کا مسکن کوہ ہمالیہ اور ہندوکش کے برف پوش پہاڑہیں۔  

گلگت بلتستان کے کئی علاقوں کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیرکی وادی نیلم پر مشتمل اکیاسی ہزار مربع کلومیٹر پر محیط علاقہ برفانی چیتے کا مسکن ہے۔ 

برفانی چیتا کیوں مارا جاتا ہے؟ 

گلگت بلتستان میں جن پانچ افراد کو برفانی چیتےکو مارنے کے جرم میں سزا ہوئی، ان میں سے نگر ہوپر کے دو رہائشی (سلیم اور محمد) یکم اگست کو بولتر نالا کی پہاڑیوں میں سلاجیت کی تلاش میں گئے تھے۔ وہاں انہیں برفانی چیتا نظر آیا اور انہوں نے گولی مار کر اسے ہلاک کر دیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے چیتے کی کھال حنود کرنے والے کاریگر کو دی اور سوشل میڈیا پر اس کے فروخت کی مہم شروع کر دی۔ جبران حیدر نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تصاویر نمودار ہونے کے بعد محکمے نے ان کی تلاش شروع کی اور دو دن میں ان دونوں کے علاوہ حنود کرنے والے دو کاریگروں اور ایک معاون کو بھی گرفتار کر لیا۔ مقامی عدالت نے پانچوں ملزمان کو قید اور جرمانہ کی سزا دی۔ 

جبران نے بتایا کہ برفانی چیتے کی کھال کے علاوہ ہڈیاں بھی بیچی جاتی ہیں۔ عام طور پر کھال کو حنود کر کے گھروں میں تزئین و آرائش کے مقاصد کے لیے رکھا جاتا ہے۔ 

تاہم جبران  کے مطابق  برفانی چیتے کی ہڈیاں پاکستانی شکاری نہیں نکال سکتے اور انہیں باقی حصوں کے ساتھ ضائع کر دیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا کہ مقامی لوگ برفانی چیتے سے نفرت بھی کرتے ہیں اور انہیں دیکھتے ہی گولی مار دیتے ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ کرہ ارض کے درجہ حرارت میں کمی بھی برفانی چیتے کی آبادی میں کمی کا باعث بن رہی ہے۔ 'چرواہے اپنے جانور چرانے پہاڑوں پر لے جاتے ہیں،جہاں ان کا سامنا برفانی چیتے سے ہونے کی صورت میں چرواہوں کے ہاتھوں ان کے مارے جانے کےخدشات ہوتے ہیں۔'   

برفانی چیتے کا شکار کون کرتا ہے؟ 

گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے شکاری سلطان گولڈن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ خرچہ بہت زیادہ ہونے کے باعث مقامی شکاری قانونی طریقے سے برفانی چیتےکا شکار نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ برفانی چیتے کے شکار کے لائسنس کی قیمت ایک کروڑ روپے سے زیادہ ہے، جس میں سے 15 فیصد حکومت اور باقی مقامی آبادی کو ادا کیا جاتا ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ صرف غیر ملکی ہی لائسنس حاصل کر کے برفانی چیتےکا قانونی شکار کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی یا پاکستانی شکاری غیر قانونی طور پر اس جانور کا شکار کرتے ہیں۔ 

پاکستان کی جنگلی حیات  

وفاقی وزارت ماحولیاتی تبدیلی کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں قابل ذکر ماحولیاتی نظام (ایکو سسٹم) پایا جاتا ہے، جس کے باعث یہاں جانوروں اور پرندوں کی کئی اقسام موجود ہیں، جن میں اکثر ایسی ہیں جو صرف پاکستان میں ہی پائی جاتی ہیں۔ 

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پائے جانے والی جنگلی حیات میں بچے جننے اور دودھ پلانے والے جانوروں (میملز) کی 198، پرندوں کی 700، خشکی اور تری دونوں پر رہنے والے جانوروں (ایمفیبینز) کی22 اور رینگنے والے جانوروں (ریپٹائلز) کی 177 اقسام پائی جاتی ہیں جبکہ ریڑھ کی ہڈی کے بغیر جانوروں کی پانچ ہزار اقسام بھی پاکستان میں موجود ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں تازہ اور کھارے پانی میں پائی جانے والی مچھلیوں کی بھی تقریبا ً200اقسام موجود ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات