نیب قانون میں کیا خامیاں ہیں، کیسے دور کی جاسکتی ہیں؟

حال ہی میں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے نیب کے کئی مقدمات میں اس کی کارکردگی اور اس کے افسران کی نااہلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کے افسران کو پتہ ہی نہیں کہ تحقیقات کیسے کی جاتی ہیں۔

(نیب)

کسی معاشرے میں مختلف جرائم میں ملوث افراد جب عدالتوں سے متعلقہ اداروں یعنی پولیس کی ناقص کارکردگی اور تفتیشی عمل کی وجہ سے رہائی پانے میں کامیاب ہوتے ہیں تو اس کا معاشرے پر منفی اثر مرتب ہوتا ہے۔

پولیس اور قومی احتساب بیورو (نیب) اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے گذشتہ کئی ماہ سے عوام اور ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ کی توجہ کا مرکز بنی ہے۔

سپریم کورٹ کی مختلف بنچوں نے فوجداری مقدمات میں ملوث کئی ملزمان کو پولیس کی طرف سے پیش کردہ ناقص ثبوت اور عدم شواہد کی بنا پر یا تو ضمانت پر رہا کیا ہے یا بری کر دیا ہے۔ اسی طرح عدالت عظمی نے قتل کے اکثر مقدمات میں سزائے موت پانے والے مجرمان کو بھی شک کی بنا پر بری کیا ہے۔

پچلے سال اکتوبر میں سابق چیف جسٹس جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے 2017 میں راولپنڈی کے آر اے بازار میں پیش آ نے والے ایک خود کش حملے میں ملوث اور 20 مرتبہ سزائے موت پانے والے ملزم کو شک اور کمزور استغاثہ پر بری کر دیا تھا۔

ملزم عمر عدیل کو ٹرائل کورٹ نے خود کش بمبار کا ساتھ دینے پر 20 مرتبہ سزائے موت سنائی تھی اور لاہور ہائی کورٹ نے اس کی سزا برقرار رکھی تھی۔ یہ خود کش حملہ ایک بس پر ہوا تھا جس میں آئی ایس آئی کے ملازمین سوار تھے۔ اس کے نتیجے میں 20 افراد ہلاک اور 36 زخمی ہوئے تھے۔

 سماعت کے دوران چیف جسٹس آ صف سعید خان کھوسہ نے ریمارکس دیے تھے کہ استغاثہ نے صرف دو پولیس اہلکاروں کو گواہ بنایا کیونکہ وہ کسی افسر کو انکار نہیں کر سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ استغاثہ نجی گواہ ڈھونڈنے میں ناکام رہی باوجود اس کے کہ واقعہ ایک بڑے بازار میں پیش آیا۔

عدالت کا مزید کہنا تھا کہ اتنے بڑے ہائی پروفائل کیس میں استغاثہ نے اتنے کمزور شواہد سامنے پیش کیے۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا تھا کہ استغاثہ ملزم کے کسی بھی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ منسلک ہونے کو بھی ثابت نہ کر سکی۔

اسی طرح سپریم کورٹ نے 2018 میں مسیحی خاتون آسیہ بی بی جن کو 2010 میں ٹرائل کورٹ نے توہین رسالت کیس میں سزائے موت دی تھی، شک کی بنا پر بری کر دیا تھا۔ عدالت نے اپنی 56 صفحات پر مشتمل فیصلے میں قرار دیا تھا کہ درخواست گزار شک کے اصول پر بریت کی حق دار ہے۔

سوال یہ ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام رہتے ہیں۔

سابق جج لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل شاہ خاور کے مطابق کریمنل جسٹس سسٹم (فوجداری نظام انصاف) کے تحت کسی بھی فوجداری کیس میں جو بنیادی جز ہوتا ہے وہ ایف آئی آر ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اکثر ایف آئی آر کے مندرجات حقائق پر مبنی نہیں ہوتے اور اکثر مقدمات میں جھوٹے گواہ پیش کیے جاتے ہیں۔

اسی طرح پولیس جب عدالت میں استغاثہ پر مبنی چالان پیش کرتی ہے تو بھی ثبوت پر مبنی نہی ہوتا اور جب استغاثہ اور شواہد کی آپس میں مماثلت نہ ہو بلکہ اس میں تضاد پایا جائے تو پھر ملزمان کو شک کا فائدہ ملتا ہے اور وہ بری ہو جاتے ہیں۔

جہاں پاکستان کی بڑی عدالت محکمہ پولیس کی ناقص کارکردگی اور اس کی پیشہ ورانہ صلاحیت خصوصی طور پر اس کی تحقیقات کے حوالے سے کڑی تنقید کرتی آ رہی ہے وہاں اس نے قومی احتساب بیورو کی کارکردگی اور کمزور پراسیکیوشن، اس کے تحقیقاتی افسران کی تعیناتی اور ان کی ناتجربہ کاری پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

حال ہی میں چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے نیب کے کئی مقدمات میں اس کی کارکردگی اور اس کے افسران کی نااہلی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب کے افسران کو پتہ ہی نہیں کہ تحقیقات کیسے کی جاتی ہیں۔

قومی احتساب بیورو جسے سابق صدر پرویز مشرف نے 1999 میں قائم کیا تھا اس وقت سے ملک کی سیاسی حلقوں خصوصی طور پر اب اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے۔

نیب چیرمین کے اختیارات جن کے تحت وہ کسی کو بھی دوران انکوائری گرفتار کر سکتے ہیں، ملزمان کو کافی عرصے تک سلاخوں کے پیچھے رکھ سکتے ہیں اور ملزمان کو ضمانت کے حق سے محروم رکھنے کی وجہ سے تنقید کا مرکز بنے ہوئے ہیں۔

دوسری جانب مقامی اور بیرونی سطح پر بھی دباؤ پیدا کیا جا رہا ہے کہ نیب کے قانون این اے او 1999 میں اصلاحات کی جائیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ ایسی اصلاحات لائی جائیں جن سے قومی احتساب بیورو ایک خود مختار ادارہ بن جائے۔

اسی طرح یورپین کمیشن نے اس سال فروری میں 33 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں پاکستان کی گڈ گورننس کے حوالے سے سال 2018-2019 کی مدت کا ایک جائزہ لیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق نیب نے زیادہ تر شکایات اور تحقیقات اپوزیشن جماعتوں کے قائدین کے خلاف کی ہیں جبکہ حکمران جماعت کے سیاست دانوں اور وزرا کے خلاف محض چند مقدمات دائر کیے جن سے بظاہر نیب کی جانب داری چھلکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے پیراگان ہاوسنگ سوسائٹی کیس میں سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی کی ضمانت سے متعلق کیس کے تفصیلی فیصلے میں نیب پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ستاسی صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جسے جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا کہا گیا ہے کہ نیب کو محض سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ اس نے اپنے امتیازی سلوک کی وجہ سے اپنے ساکھ کو کافی متاثر کیا ہے اور عوام کے اعتماد کو اپنی ساخت کے حوالے سے ٹھیس پہنچائی ہے۔

اسی طرح پچھلے ہفتے سپریم کورٹ کے ایک بنچ نے نیب کے ایک ملزم کی ضمانت کے ایک کیس میں نیب کے ادارے میں تعیناتیوں کے اختیارات پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔ ازخود نوٹس لیتے ہوئے پراسیکیوٹر جنرل کو طلب کیا گیا ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن کر سکیں کہ چیرمین نیب کا یہ اختیار جوکہ انہیں نیب آرڈینینس 1999 کے سیکشن 28-جی کے تحت حاصل ہے کہیں

آئین کے آرٹیکل 240 اور 242 کو بائی پاس تو نہیں کرتا ہے۔

آرٹیکل 240 وفاق میں تعیناتیوں جبکہ 242 پبلک سروس کمیشن کے حوالے سے ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عدالت نے یہ نکتہ اس لیے اٹھایا جب سماعت کے دوران موجود ڈی جی نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی نے ایک سوال پر جواب دیا کہ وہ پیشے کے لحاظ سے انجینئر ہیں اور فوجداری مقدمات کے حوالے سے کوئی تجربہ نہیں رکھتے۔ عرفان نعیم منگی نیب کے وہ افسر ہیں جو سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے خلاف پاناما کیس میں تحقیقات کے لیے بننے والی جے آئی ٹی کے رکن تھے۔

اس پر بنچ نے یہ سوال اٹھایا کہ ایک انجینیئر کیسے بطور ڈی جی نیب کام کر سکتا ہے۔ عدالت نے نیب میں مروجہ رولز کی عدم دستیابی پر بھی تشویشِ کا اظہار کیا تھا۔

سینیئر قانون دان شاہ خاور کا کہنا ہے کہ نیب کا تفتیش کا طریقہ کار نہایت ناقص ہے کیونکہ نیب کے تفتیشی افسران نہ تجربہ کاری اور قانون سے نابلد ہوتے ہیں۔ ’اس کی وجہ یہ ہے کہ تفتیشی افسران کو تعینات کرنے کے لیے قانون کی ڈگری ہونا لازمی نہیں ہے۔‘

شاہ خاور کا مزید کہنا ہے کہ ہونا یہ چاہیے کہ نیب کے اندر ایف آئی اے اور پولیس کے تجربہ کار افسران کو ڈیپوٹیشن پر تعینات کیا جائے اور آئندہ تفتیشی افسران کی تعیناتی کے لیے قانون کی ڈگری کو لازم قرار دیا جائے۔ ان کی مناسب تربیت بھی ہونی چاہیے۔

 پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چیئرمین سید امجد علی شاہ نیب میں پبلک سروس کمیشن کے تحت تعیناتیوں کے حامی ہیں۔  ان کا کہنا ہے یہ عمل ادارے کی مضبوطی کا باعث بنے گی۔

پاکستان بار کونسل کے موجود وائس چیرمین عابد صاقی کے مطابق نیب میں  افسران کی تعیناتیوں کے لیے لیگل ایجوکیشن کی ڈگری اور کریمنالوجی اور فننانس میں مہارت اور تجربہ لازمی قرار دیا جائے۔

ساقی کا مزید کہنا ہے کہ نیب کے قانون میں ٹرائل کورٹس کو ضمانت دینے کے اختیارات کے حوالے سے مناسب ترامیم کی جائیں جبکہ نیب کی گرفتاریوں کے  عمل کو ٹرائل کورٹ کی اجازت سے مشروط کیا جائے۔

کئی سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے اپنے ادوار میں نیب کو بہتر بنانے پر کیوں توجہ نہیں دی تھی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی حکومت کا خیال ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی نیب قانون کے لیے مجوزہ ترامیم ان کے کرپشن کے خلاف سخت موقف کے خلاف ہے۔ ایسے میں جلد کسی اتفاق رائے کا امکان کم دکھائی دے رہا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست