'لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان میں امن کے بغیر حل نہیں ہو سکتا'

سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک بلوچ کا انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ خصوصی انٹرویو جس میں انہوں نے حالات حاضرہ سمیت اپنے دور حکومت میں پیش آنے والے معاملات پر بھی روشنی ڈالی۔

(سکرین گریب)

بلوچستان کے سینیئر اور متحرک سیاستدان ڈاکٹر مالک بلوچ صوبے کے پہلے منتخب ہونے والے  وزیراعلیٰ تھے۔ 

 ان کا تعلق کسی سردار فیملی سے نہیں تھا۔ ان کا اوڑھنا بچھونا سیاست ہے اور زندگی کا بڑا حصہ انہوں نے سیاست میں  گزارا ہے۔  

 وہ سیاستدان کے ساتھ دانشور بھی ہیں اور ان کی حالات پر گہری نظر رہتی ہے۔ 

 ڈاکٹر مالک بلوچ سے بلوچستان اور خطے میں بدلتے حالات کے حوالے سے خصوصی بات چیت پیش کی جارہی ہے۔ 

بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اوراب تک کی کارکردگی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ 

ڈاکٹر مالک بلوچ: یہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ میں المیہ ہے کہ یہاں راتوں رات ایوب خان سے لے کر ضیا الحق، مشرف کے دور اور اب موجودہ بلوچستان عوامی پارٹی ، یہ پارٹیاں بنتی رہی ہیں۔ اور عوامی مفادات کے خلاف بنتی ہیں۔  ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں جوجدوجہد کی پیداوار ہیں۔ قابل احترام ہیں۔ جن کا کوئی تاریخی پس منظر ہو۔  

 میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان عوامی پارٹی بھی انہی جماعتوں  کا تسلسل ہے۔  

- مکمل انٹرویو یہاں دیکھیے:

 کنونشن لیگ ہو ،مشرف کی ق لیگ ہو،یہ بھی انہی سے ملتی جلتی پارٹی ہے۔  

 جو تاریخ نے ان کے ساتھ سلوک کیا وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے ساتھ بھی ہوگا۔ کیونکہ زور زبردستی سے پارٹیاں  نہیں بنتیں، پارٹیاں فکری حوالے سے کمٹمنٹ کے حوالے سے اور ایک تاریخی ارتقائی عمل سے گزر کر بنتی ہیں۔ اور وہی جماعتیں کامیاب ہوتی ہیں۔ یہ راتوں رات بننی والی پارٹیاں کامیاب نہیں ہوتیں۔ 

 ہمارے سامنے بہت سے پارٹیاں بنی ہیں جو ہم دیکھ چکے ہیں ۔1977کے بعد تو ہمیں سب چیزوں کا پتہ ہے۔ میں  سمجھتا ہوں جو حشر ان کا ہوا اس کا بھی ایسا ہی حشر ہوجائے گا۔ 

لاپتہ افراد کا مسئلہ آپ کے دور حکومت میں تو حل نہیں ہوسکا آپ کے جانے کے بعد کیا ابتر ہوا یا بہتر؟ 

ڈاکٹر مالک بلوچ: اس میں دو رائےنہیں ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ بلوچستان کی مسلح جدوجہد کے ساتھ منسلک ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہو یہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کوئی واقعہ کہیں ہوجاتا ہے تو دو آدمی چھوڑ دیے جاتے ہیں اور دس کو اٹھالیا جاتا ہے۔  اس مسئلے کو حل کرنے کی بنیاد یہ ہے کہ جاکر مذاکرات کریں۔ اب بھی ہماری پارٹی کی یہی خواہش ہے۔  

 دنیا میں انسرجنسی کو ڈیل کرنے کے اور گوریلا جنگ ڈیل کرنے کے لیے دو سٹریٹجیز ہیں۔ ایک تامل سٹریٹجی جو مکمل تباہ کاری ختم کرنا ہے، دوسری آئرش سٹریٹجی ہے۔ 

اب بلوچستان جافنا تو نہیں ہے، وہ تو ایک چھوٹی سی جگہ تھی، سارا جنگل تھا، یہاں تو ایک پہاڑی کے اندر کوئی چھپ جاتا ہے توآپ کواس کو ڈھونڈنےمیں دس سال لگ جاتے ہیں۔  

آج بھی ہماری رائے ہے کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں ہوگا جتنی بھی کوششیں کی جائیں۔  

میں نے کراچی پریس کلب میں کہا تھا سب کو یاد ہوگا کہ میں بہ حیثیت وزیراعلیٰ اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوگیا ہوں۔ اس لیے کہ یہ امن سے منسلک ہے۔ جب تک بلوچستان میں امن نہیں ہوگا۔ یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ 

 جو بھی کہے گا پوائنٹ سکورنگ کرے گا۔ وہ عوام کے ساتھ زیادتی کررہا ہوگا۔ میری ذاتی رائے اور تجربہ یہی کہتا ہے کہ جب تک مذاکرات نہ ہوں بلوچستان میں انسرجنسی ختم نہ ہو تب تک یہ چلے گا ۔ 

آپ کے دور حکومت میں بلوچستان میں قیام امن کے لیے مزاحمت کاروں سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا اور ہماری معلومات کے مطابق وہ نتیجہ خیز بھی رہا لیکن یہ کیوں  منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا؟ 

ڈاکٹر مالک بلوچ: میں پھر کہتا ہوں کہ یہ ہماری بدقسمتی ہے۔ یہاں پر تو دو مائنڈ سیٹ تھے۔ ایک یہ تھا کہ مذاکرات کیے جائیں دوسرا تھا کہ نہیں کیے جائیں۔ یہ مائنڈ سیٹ سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں میں تھا۔ لیکن اس وقت جو سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کی قیادت تھی۔ انہوں نے کہا آپ جائیں اور مذاکرات کریں۔ اس میٹنگ میں بڑے ذمہ دار لوگ موجود تھے۔ جن کا نام لینا یہاں مناسب نہیں ہے۔ یعنی ٹاپ کی سیاسی قیادت اور ٹاپ کی عسکری قیادت موجود تھی۔ میں نے کوشش کی۔ 

میں مشکور ہوں نوابزادہ براہمدغ بگٹی ( نواب اکبر خان بگٹی کے نواسے جو اس وقت جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں ) کا، جنہوں مجھےعزت دی اور مجھ سے بات کی۔  

میں نے ان سے کہا تھا کہ نوابزادہ صاحب میں طاقتور آدمی نہیں ہوں، میں صرف  آپ کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان برجنگ (بریجنگ) کرسکتا ہوں۔ اور آپ نے جو کچھ کہنا ہے۔ ان کے سامنے کہنا ہے۔ انہوں نے کہا 'یس۔'  

میں پھر چلا آیا اور میں نے رپورٹ کی۔ پھر ہم نے ایک ٹیم بنائی اس ٹیم میں، میں اور جنرل (ر ) عبدالقادر بلوچ شامل تھے۔ ہم گئے اور دو دن مذاکرات کیے اور نوابزادہ براہمدغ  بگٹی نے ہمیں بہت عزت دی اس بات کے جنرل ( ر ) قادر بلوچ گواہ ہے ۔ 

ان کے ایسے اجتماعی مطالبات تھے کہ علاقے میں سکول ،ہسپتال اور بجلی ،پانی جس کو میں بہ حیثیت وزیراعلیٰ بلوچستان بھی حل کرسکتا تھا لیکن اس باب کو اس طرح بند کیا گیا۔ جو مجھے بھی آج تک پتہ نہیں ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب  ہمارے درمیان معاہدے کے بعد میں نے وزارت اعلیٰ چھوڑی تو میں نے دو تین دفعہ ذمہ دار عسکری قیادت کو اور سیاسی قیادت کو کہا کہ آپ لوگوں نے ہمیں بھیجا اور ہماری کچھ بلوچی روایات ہیں۔ اس لیے لوگ آپ پر بھروسہ نہیں  کرتے ہیں۔ آپ نے مجھے بھیجا اور اب آپ لوگوں نے اس کو سرد خانے میں ڈال دیا ہے۔  

میں سمجھتا ہوں کہ یہ بدقسمتی ہے کہ جو سٹریٹجی اس وقت چل رہی ہے، جو تامل سٹریٹجی ہے۔ یہ بڑی بد قسمتی ہے۔ اگر یہ مذاکرات ہوجاتے کیونکہ ہم نے ایک جرگہ  خان آف قلات سلیمان داؤد کے پاس بھیجا اورمیں خود بھی وہاں گیا تھا تو خان آف قلات خان سلیمان داؤد  نے بھی جو جرگہ ان کے پاس گیا تھا۔ جس میں سردار کمال خان بنگلزئی ،نواب محمد خان شاہوانی ،میر کبیر محمد شہی اورمیرخالد لانگو شامل تھے۔ جنہوں نے خان آف قلات سے ملاقات کی تھی۔ 

جس کے بعد اب یہ ان لوگوں نے کہا کہ ہم نے کسی کوایسا کچھ نہیں کہا کیونکہ عسکری اور سیاسی قیادت کی جو کمٹمنٹ تھی۔ اس کو وہ آگے لے کر نہیں گئے۔ 

یہ بڑی بدقسمتی ہے۔ ورنہ بلوچستان میں اس قت مکمل امن قائم  ہوچکا ہوتا ۔ 

دوسرا جو امن کا مسئلہ تھا ہم نے پولیس کو ازسر نو منظم کیا۔ اسے فوج  سے  ٹریننگ دلوائی او اس وقت پولیس کے تھانے ہم نے آزاد کیے ،پوسٹنگ ٹرانسفر کو آئی جی پولیس کے حوالے کیا۔ کیونکہ جب تھانے نہیں بکیں گے توامن ہوگا جب تھانے بکیں گےتو امن نہیں ہوگا۔ 

کیا موجودہ حکومت بھی اسی طرح مزاحمت کاروں سے بات چیت کرنے کی اہلیت اور اختیار رکھتی ہے؟ 

ڈاکٹر مالک بلوچ: اس کا مجھےعلم نہیں اور مذاکرات کی اہلیت تو ہر کوئی رکھتا ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ یہ اس کے سیاسی پروگرام کا حصہ ہے یا نہیں؟ کیونکہ میں دو سال سے  حکومت میں شامل نہیں اس لیے مجھے کوئی علم نہیں ہے۔ 

آپ کے دور حکومت میں مسلح گروہوں کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی گئی تھی جس کے نتائج بھی سامنے آئے تھے آپ نے کس حد تک اس میں کامیابی حاصل کی تھی؟ 

ڈاکٹر مالک بلوچ: دیکھیں اس میں بنیادی طورپراس وقت کا جو کور کمانڈر تھے، ناصر جنجوعہ، وہ اس مسئلے پر کافی کلیئر تھے۔ انہوں نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا اوریہ جو بہت سے مسئلے تھے، انہوں نے اپنی قیادت کو بتایا، میں نے اپنی قیادت کو بتایا۔ اس سے بہت سے ہمارے مسائل حل ہوئے۔ اگر وہ ہم سے تعاون نہیں کرتے تو ایمانداری سے یہ میرے بس میں نہیں تھا۔ انہوں نے تعاون کیا اور جو مذاکرات ہوئے یا امن قائم ہوا مسلح گروہ تھے۔  

میں سمجھتا ہوں  کہ یہ منفی چیزیں ہیں۔ میں اس بات پر کلیئرہوں کہ جو بندوق ہے۔ وہ ریاست کے پاس ہونی چاہیے۔  

کیونکہ میں ایک جمہوری آدمی ہوں،میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، میں اس ملک میں حقیقی جمہوریت دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں  بندوق کے حق میں نہیں ہوں۔ بندوق صرف ریاست کےپاس ہونا چاہیے۔  

اگر ریاست اپنا تحفظ نہیں کرسکتی تو بے شک  دس لوگوں  کو دس گروہوں کو بندوق دے دے تو وہ کچھ نہیں ہے۔ میں ریاست سے ہٹ کر کسی بندوق بردار کے حق میں نہیں ہوں۔ 

تربت کے علاقے میں خاتون کے قتل اور بچی برمش کے واقعے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے بعد بیداری تحریک کے بارےمیں کیا کہیں گے؟ 

ڈاکٹرمالک بلوچ: بلوچستان میں فرسٹریشن موجود ہے۔ بلوچستان میں سیاسی فرسٹریشن موجود ہے۔ بلوچستان میں عوامی فرسٹریشن موجود ہے۔ بلوچستان میں انتظامی فرسٹریشن موجود ہے۔  

آپ نے دیکھا ہوگا کہ یہاں پرجوہمارےپشتون بھائیوں کوکھڈ کوچہ کےمقا م پرشہید کیا گیا ان کی لاشو ں کو لاکرمیرے سی ایم سیکرٹریٹ کے سامنے رکھا گیا۔  

چونکہ میں ایک حقیقی سیاسی ورکر ہوں مجھے بہت سے لوگوں نے کہا کہ نہیں جاؤ، میں نے کہا کہ میں جاؤں گا۔  

میرے بھائی ہیں۔ میں جاؤں گا۔ آپ یقین کریں کہ اس وقت اتنا جذباتی ماحول تھا،20 افراد کی لاشیں رکھی تھیں، جو بے گناہ پختون تھے۔ میں  گیا میں نے ان سے درخواست کی، میں نے ان کو سمجھایا اور مسئلہ خوش اسلوبی سے حل کرلیا۔ 

دیکھیں بلوچستان ابھی تک خشک نہیں ہے۔ بلوچستان میں زندہ لوگ ہیں جواپنے حقوق کو جانتے ہیں۔ 

 چمن میں کیا ہوا آپ نے لوگوں کو مارا تو اس کا رد عمل آگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں میں بیداری بھی ہے۔ 

لیکن موجودہ حکومت میں یہ اہلیت نہیں ہے۔ انتظامی صورت میں ہویا لیڈر شپ کے حوالےسے ہو، کہ وہ اہم  مسائل کا سامنا کرسکے۔ جب تک آپ اہم مسائل کا سامنا نہیں کریں گے۔۔۔ لوگ سڑکوں پر باہر نکلیں گے۔ 

افغانستان میں قیام امن کے لیے لویہ جرگہ نے سنگین جرائم کے طالبان قیدی رہا کرنے کااعلان کیا ہےاس کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

ڈاکٹر مالک بلوچ: دیکھیں ہماری شروع دن سے یہی پالیسی رہی ہے۔ کہ اس ریجن میں امن ہونا چاہیے۔  چاہے پاکستان ہو،انڈیا ہو،ایران یاافغانستان ہو، امن کے بغیر ہم ترقی نہیں کرسکتے۔ افغانستان اور پاکستان میں ہمارے کتنے لوگ مارے گئے  جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ 

افغانستان جیسا ایک ترقی یافتہ معاشرہ، اگر آپ چالیس سال قبل کا کابل دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے۔ کہ وہ کیا کابل تھا، بلکہ یورپ تھا، تہران آپ دیکھیں وہ یورپ تھا۔ 

سامراجی جنگوں نے ہمیں تباہ و برباد کردیا۔ اب امریکہ صدر ٹرمپ خود مانتے ہیںکہ امریکہ کا مڈل ایسٹ اور افغانستان میں آنا بڑی غلطی تھی۔  

کاش کے یہ اس وقت ادراک کرلیتے تو اتنے افغان باشندے نہیں مرتے نہ پاکستان میں ہلاکتیں ہوتیں،اس کوبہت پہلے ہونا چاہیے تھا۔ افغانستان میں امن ہوگا تو پاکستان میں امن ہوگا۔ ایران میں امن ہوگا۔ یہ تمام حالات ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں، ایک جگہ امن ہوگا تو دوسری جگہ پر ہوگا۔ ایک جگہ خون خرابہ ہوگا تو دوسری جگہ پر بھی ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں اس کو پہلے ہونا چاہیے تھا آج جو ہورہا ہے ہم  اس کی حمایت کرتے ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان