گاؤں سے لوٹتے ہوئے گاڑی جوں ہی موٹر وے سے نیچے اتری تو میرے اندر کا خوابیدہ ایڈونچر پسند نوجوان جاگ اٹھا اور گاڑی کو گھر رخصت کرتے ہوئے پشاور کے مشرقی سرے پر واقع بی آر ٹی سٹیشن کی سیڑھیاں چڑھ کر ٹکٹ لینے بوتھ پر چلا آیا۔
ٹکٹ بوتھ پر 'قومی شناخت' یعنی جم غفیر اور دھکم پیل دیکھ کر واپس لو ٹنے کو تھا کہ ایک ہینڈسم نوجوان بھاگتا ہوا آیا اور خود کو بی آر ٹی کا سٹیشن مینیجر اور میری تحریروں کا دلدادہ بتا کر گرم جوشی سے تعارف کروایا اور 'میرے لائق کوئی خدمت ' کا پوچھا تو میں نے فوراً سو روپے کا نوٹ نکال کر اسے ٹکٹ کی خدمت کا موقع فراہم کیا۔
لیکن پیسے لینے کی بجائے وہ بھاگ کر ٹکٹ بوتھ کے اندر گیا اور 50 روپے کا ٹکٹ لاکر میرے ہاتھ پر رکھا اور مجھے جم غفیر اور دھکم پیل سے بچاتے ہوئے سیڑھیوں کے پاس لا کر گرم جوشی اور شائستگی سے رخصت کیا۔
نیچے اتر کر میں دو قطاروں میں سے ایک قطار میں کھڑا ہو گیا۔ 14 اگست کی تپتی ہوئی حبس زدہ سہ پہر میں میرا خیال تھا کہ روایتی اور تکلیف دہ انتظار کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن حیرت انگیز طور پر ایک منٹ سے بھی کم وقت میں بی آر ٹی بس ہمارے سامنے آ کر رکی۔
چونکہ اس منصوبے کا صرف ایک دن پہلے ہی افتتاح ہوا تھا، اس لیے عام لوگوں کا جوش و خروش بلکہ ندیدہ پن اور بے ترتیبی پورے جوبن پر تھی۔ ایک دوسرے کو دھکے دیتے ہوئے ہم بس میں داخل ہوئے تو شور و غل اور رش کے باوجود بھی اندر کا ٹھنڈا اور سہولت آمیز ماحول ایک سرشار کر دینے والا احساس دلانے کے لیے کافی تھا۔
چند سیکنڈ رکنے کے بعد بس روانہ ہوئی۔ بہت سے نوجوان بس میں موجود وائی فائی کی سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لائیو ویڈیوز بناتے اور اس پر کمنٹری کرتے رہے۔ پرانے شہر کے رش کو محفوظ ٹریک سے چیرتے ہوئے بس چند منٹ بعد صدر اور کینٹ ایریا کی حدود میں داخل ہوئی تو باہر کے نظارے کے ساتھ ساتھ بس میں چڑھنے والی سواریوں کا معیار بھی تبدیل ہوتا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بی آر ٹی ٹریک پر بس کا ادھر ڈوبے، ادھر نکلے والا نظارہ بہت مسحور کن ہے، کیونکہ بس کبھی ٹنل میں تو کبھی بلندی یعنی فلائی اوور پر چلی جاتی ہے۔ پسنجر سٹیشنز بہت قرینے سے بنائے گئے ہیں۔ اگر حسب عادت اور حسب معمول جلوسوں کی زد میں نہ آئے، جنگلے نہیں اکھاڑے گئے، شیشے نہیں توڑے گئے اور بھکاریوں اور پوڈریوں کی آماج گاہیں نہیں بنے تو غیر قانونی ٹیکسی سٹینڈز، بے ہنگم ٹریفک اور بے ترتیبی کی زد میں آئے شہر پشاور کے لیے بی آر ٹی کا ٹھنڈا ٹھار اور ہموار سفر کسی نعت سے کم ہرگز نہیں کیونکہ شہر کے مغربی کنارے پر واقع جدید ٹاؤن شپ حیات آباد سے مشرقی سمت کے آخری کنارے عین موٹروے تک تمام اہم علاقوں کے رہائشی بمع حیات آباد، یونیورسٹی ٹاؤن، تہکال اور صدر کے ہزاروں لوگ اس سہولت کا صبح و شام فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تحریک انصاف حکومت کے ہاتھوں ہی سہی عوام کو کوئی سہولت اور فائدہ پہنچ رہا ہے تو ضروری نہیں کہ ہر معاملے میں کیڑے نکالے جائیں اور سیاسی یا (صحافتی) پوائنٹ سکورنگ کی جائے۔ البتہ ناقص کارکردگی پر سوال بھی اٹھائے جاتے رہیں گے، وعدے بھی یاد دلاتے رہیں گے اور تنقید بھی کرتے رہیں گے بلکہ ہم نے تو حکومت کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے بی آر ٹی کے حوالے سے بھی اپنے کالموں اور مختلف ٹی وی ٹاک شوز میں مسلسل 'بربادی پر طعنہ زنی اور نوحہ خوانی' والا رویہ اپنائے رکھا تھا۔
لیکن اب جبکہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے یعنی یہ منصوبہ اپنی تکمیل کو پہنچ بھی گیا ہے اور عوام اس سہولت کا فائدہ اٹھانے بھی لگے ہیں تو چوہدری شجاعت والے فلسفے یعنی 'مٹی پاؤ' پر چلنا ہی دانشمندی ہے۔ دیر سے اور بڑے بجٹ سے ہی سہی لیکن تحریک انصاف حکومت نے پشاور کے شہریوں کو ایک یادگار اور ناقابل فراموش سہولت سے یقیناً نوازا ہے اور کیا حرج ہے کہ عمران خان اور وزیراعلیٰ محمود خان کی تعریف کی جائے کیونکہ یہی تو اس پیغمبرانہ پیشے (صحافت) کا اصل معیار ہے کہ ذاتی دشمنی یا دوستی کی بجائے ملک اور عوام کے مفادات اور خیر وشر کے حوالے سے معاملات کو پرکھا جائے اور اس سلسلے میں جب بھی خیر کا پہلو نظر آیا تو عمران خان ہی کیا، فیاض چوہان تک کی تعریف میں لکھنے سے انکار نہیں کریں گے۔