جب ایک اچھا کھانا سپر ہٹ کلاسک کامیڈی فلم کی وجہ بنا 

اگر اس دن فلمساز سنہا گھر کا کھانا ہدایت کار سنتوشی کو نہ کھلاتے تو کروڑوں فلم بینوں کے چہرے کھلکھلاتی مسکراہٹوں سے محروم رہ جاتے۔

(ونے پکچرز)

یہ فروری 1991 کی دوپہر کا منظر تھا۔ راج کمار سنتوشی ’گھائل‘ جیسی سپر ہٹ فلم کی کامیابی کے مزے لوٹ رہے تھے۔ بیشتر پروڈیوسر ان کے ساتھ فلم بنانے کی خواہش رکھتے تھے، لیکن وہ ہر ایک سے معذرت کرتے جا رہے تھے۔

ان کے قریبی احباب جانتے تھے کہ وہ خاصے خوش خوراک ہیں۔ طرح طرح کے دیسی بدیسی کھانوں کا خاص شغف رکھتے ہیں۔ ان کا وزن بھی بڑھ رہا تھا لیکن فربہ مائل ہونے کے باوجود اچھا کھانا جیسے ان کی کمزوری تھا۔ اس دن بھی ان کی بھوک زوروں پر تھی۔اس سے پہلے وہ کھانے کا آرڈر دیتے کہ دروازہ کھلا اور پروڈیوسر وینے کمار سنہا ہاتھوں میں ایک بڑا لنچ باکس تھامے ان کے مقابل آ کھڑے ہوئے۔

راج کمار سنتوشی کے لیے وینے کمار کسی تعارف کے محتاج نہیں تھے۔ یہ وہی پروڈیوسر تھے جنہوں نے 1983 میں امجد خان کو پہلی بار ہدایت کاری کا موقع فلم ’چور پولیس‘ سے دیا۔ وینے کمارسنہا ہیلو ہائے کرنے کے بعد نشست پربیٹھ گئے اور گھرسے لایا لنچ باکس میز پر سجانا شروع کر دیا۔

کھانا سامنے دیکھ کر راج کمار سنتوشی سب کچھ بھول بیٹھے۔ دونوں شخصیات ہاتھ صاف کرتی رہیں۔ وینے کمار سنہا اب دھیرے دھیرے اپنے مقصد پر آ رہے تھے۔ وہ معدے کے راستے راج کمار سنتوشی کے دل تک کم و بیش پہنچ گئے تھے۔ جنہوں نے ہدایتکار کی طرف ایک سوال اچھالا کہ راج جی کب تک ایکشن ایڈونچر اور سماجی موضوعات کی حساس فلمیں بناتے رہیں گے، کیوں نہ کوئی ہلکی پھلکی مزاحیہ فلم کریں؟‘

سنتوشی نے کھاتے کھاتے پوچھا کہ کس کے ساتھ؟ وینے کمار سنہا نے بے ساختہ عامر خان کا نام لیا۔ راج کمار سنتوشی مسکراتے ہوئے بولے، چلیں ملاتے ہیں نمبر عامر خان کا اور کرتے ہیں اُس سے بات۔‘

اسی وقت عامر خان کو فون لگایا گیا تو وہ خود راج کمار سنتوشی کے ساتھ کام کرنے کے لیے بے چین تھے۔ انہوں نے فون پر ہی اپنی رضا مندی ظاہر کر دی۔ وینے کمار سنہا کے چہرے پر اطمینان تھا۔ انہوں نے اپنا اگلا کارڈ شو کیا اور بولے، ’عامر کے ساتھ سلمان کیسا رہے گا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

راج کمار سنتوشی کے چہرے پر پہلی بار پریشانی کے آثار نمایاں ہوئے۔ کیونکہ اُس وقت تک عامر اور سلمان دونوں ہی سپر اسٹار بننے کے مراحل میں تھے اور ذرائع ابلاغ میں دونوں کی پیشہ ورانہ رقابت کی خبریں عام تھیں۔ راج کمار سنتوشی فلم نگری میں گھاٹ گھاٹ کا پانی پیے ہوئے تھے اور جانتے تھے کہ دو بڑے اداکاروں کے ساتھ کام کرنا کس قدر جان جوکھم کا کام ہے۔ جبھی انہوں نے دریافت کیا، ’عامر کے ساتھ کام کرنے پر سلمان مان جائے گا؟‘

وینے کمار سنہا نے پراعتماد انداز میں جواب دیا کہ سلیم خان سے ان کے قریبی مراسم ہیں، والد کے حکم کے آگے سلمان خان کبھی بھی نہ نہیں کریں گے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ کہانی کیا ہو گی۔ اسی پر ایک نئی بحث کا آغاز ہوا۔ راج کمار سنتوشی کا کہنا تھا کہ فلم ’آچی کامک‘ کو ذہن میں رکھ کر تیار ہونی چاہیے۔ عامر خان کو کامک کردار ’راگی مینٹل‘ کے روپ میں پیش کریں گے جو کہ غیر معمولی طور پر شاطرانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ جبکہ سلمان خان کو اوٹ پٹانگ اور احمقانہ حرکتیں کرنے والے کند ذہن آرچی اینڈریوز کے طور پر دکھائیں گے۔ دونوں ہیروئنوں کا دل جیتنے کے لیے اپنی دانست میں عقل مندی دکھائیں گے لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی بے وقوفی کر جائیں گے۔ پوری فلم کی تھیم چونکہ کامک سیریز پر مبنی تھی اسی لیے سیٹ اور اداکاروں کے ملبوسات تک میں اس کی جھلک دکھانے کا فیصلہ کیا گیا۔

 راج کمار سنتوشی اور وینے کمار سنہا کے درمیان یہ ساری منصوبہ بندی زبانی ہی ہو رہی تھی اور وہ بھی کھانا کھاتے ہوئے۔ جو ختم ہوا تو وینے کمار سنہا کمرے سے نکلتے ہوئے خاصے مسرور تھے۔ جو کوئی اور پرڈویوسر نہیں کرسکا۔ وہ انہوں نے صرف آدھے گھنٹے میں مزے دار کھانا کھلا کر راج کمار سنتوشی کو قائل کر لیا تھا۔

اس ملاقات کے بعد تین ہفتوں میں اس تخلیق کا جسے ’انداز اپنا اپنا‘ کا نام دیا گیا۔ پیپر ورک، ہانی‘ پروڈکشن اور دیگر معاملات طے ہونے لگے۔ سلمان اور عامر تو پہلے ہی راج کمار سنتوشی کے ساتھ کام کرنے کے لیے بے تاب تھے۔ ہیروئن کے طور پر جہاں روینہ ٹنڈن تھیں وہیں منیشا کوئرالا، لیکن پھر وہ فلم سے الگ ہو گئیں تو قرعہ کرشمہ کپور کے نام نکلا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پوری فلم کی عکس بندی کے دوران کرشما اور روینہ میں تناؤ ہی رہا۔ دونوں سیٹ پر ایک دوسرے سے بات کرنا تک گوارا نہیں کرتی تھیں۔ ان کی صلح کرانے کا سہرا بھی راج کمار سنتوشی کے سر جاتا ہے، جنہوں نے کلائمکس میں جب دونوں کو رسیوں سے باندھ کر منظر عکس بند کرایا تو انہیں کھولنے کی یہ شرط رکھی کہ وہ پہلے آپس کی رنجشیں ختم کریں۔

روینہ اور کرشمہ کے برعکس سلمان خان اور عامر خان ایک دوسرے کے لیے خاصے معاون ثابت ہوئے۔ راج کمار سنتوشی کے سارے اندازے غلط ثابت ہوئے۔ کئی مواقع پرعامر خان یا سلمان خان نے ایک دوسرے کے مکالمات کیا ہونے چاہیے اس بارے میں بھی ہدایت کار کو مشورہ دیا کہ کون سا مکالمہ ان کی کیمسٹری کو بہترین بنائے گا یہ بھی دونوں بتاتے رہتے۔

 کس قدر دلچسپ بات یہ ہے کہ فلم کے اکثر سکرین پلے اور مکالمات سیٹ پر ہی لکھے جاتے۔ مووی میں امریش پوری کو موگیمبو کے چھوٹے بھائی زورامیبو کا کردار ادا کرنا تھا، لیکن دیگر فلمی مصروفیات کی بنا پر وہ دستیاب نہ ہوئے تو ٹینو آنند کو ’کرائم ماسٹر‘ گوگو کے لیے منتخب کیا گیا۔ جب ٹینو آنند نے بھی معذرت کرلی جبھی یہ کردار شکتی کپور کی جھولی میں آگرا، جنہوں نے ولن کے روپ میں لوٹ پوٹ کرتی ایسی اداکاری کی ان کے ادا کیے ہوئے مکالمات زبان زد عام ہوئے۔

مثلاً ’آیا ہوں تو کچھ تو لے کر جاؤں گا، ’خاندانی چور ہوں میں،‘ یا پھر ’کرائم ماسٹر گوگو نام ہے میرا، آنکھیں نکال کے گوٹیاں کھیلتا ہوں میں‘ آج بھی لوگوں کی زبان پر ہیں۔

’انداز اپنا اپنا‘ کی ایک اور خاص بات رہی کہ ماضی کے ولن اجیت کے بیٹے شہزاد خان نے اپنے ہی والد کے لب و لہجے کی خوب نقل کی۔ جوہی چاؤلہ اور گووندا مہمان اداکار بن کر جھملائے، یہی نہیں بالی وڈ کے تین بڑے کامیڈین جگدیپ، محمود اور دیون ورما بھی اس تخلیق میں نظر آئے۔

اسی فلم سے پاریش راول نے بالی وڈ میں پہلی بار مزاحیہ اداکاری کے جوہر دکھائے۔

راج کمار سنتوشی چونکہ ’انداز اپنا اپنا‘ کو روایتی فلموں سے ہٹ کر بنانا چاہتے تھے اسی لیے انہوں نے ٹاپ کلاس موسیقاروں آر ڈی برمن، کلیان جی آنند جی اور لکشمی کانت پیارے لال کی موجودگی میں نئے موسیقار تشار بھاٹیہ کا انتخاب کیااور ان پر واضح کردیا کہ ’انداز اپنا اپنا‘ کے گانوں میں او پی نئیر کے گیتوں کی جھلک آنی چاہیے، یعنی ماضی کی دھنوں سے ان کا ناطہ جڑا ہو۔

’انداز اپنا اپنا‘ کم و بیش تین سال کے عرصے میں تیار ہوئی کیونکہ جہاں سلمان اور عامر خان کی تاریخوں کا مسئلہ درپیش آیا وہیں راج کمار سنتوشی چاہتے تھے کہ اس کا ہر سین سو فی صد پرفکیٹ ہو، وہ فلم بین کو ہنسنے پر مجبور کر دے۔ کئی بار ریکارڈ شدہ منظر کو پھر سے عکس بند کیا گیا۔ عالم یہ تھا کہ عکس بندی کے دوران یونٹ سٹاف مختلف مناظر پر جب اپنی ہنسی روک نہ پاتا تو راج کمار سنتوشی کئی بار انہیں سیٹ سے باہر نکل جانے کا حکم دیتے۔

 چار نومبر 1994 کو جب یہ فلم سنیما گھروں کی زینت بنی تو ’اے لواسٹوری 1942،‘ ’مہرہ،‘ ’ہم آپ کے ہیں کون‘ اور ’کرانتی ویر‘ بھی ریلیز ہوئیں اور ان بڑی فلموں کی موجودگی میں ’انداز اپنا اپنا‘ کہیں کھو سی گئی۔

راج کمار سنتوشی اعتراف کرتے ہیں کہ فلم کی وہ تشہیر نہیں ہوئی جو اس کا حق تھا۔ ممکن ہے کہ کوئی اس فلم کو یاد نہ رکھتا اور یہ ناکامی سے دوچار ہوتی، لیکن اسے خوش قسمتی ہی کہیے کہ اُس برس کی ریلیز شدہ ایکشن فلموں سے جب سب کا دل بھرا تو انہوں نے ’انداز اپنا اپنا‘ کا رخ کیا تو یکدم یہ تخلیق زبردست کاروبار کرنے لگی۔

چند ہی مہینوں میں فلم نے ناکامی سے بھنور کر نکلنا شروع کر دیا۔ فلم کے مکالمات، کہانی، کامیڈی اور موسیقی کا ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ سلمان خان اور عامر خان کے چٹ پٹے مکالمے تو 26 سال گزرنے کے باوجود ہر کسی کے ذہن میں محفوظ ہیں۔اُس دور میں سو کروڑ کلب کا تو وجود نہیں تھا لیکن یہ ضرور ہے کہ ’انداز اپنا اپنا‘ پروڈیوسر وینے کمار سنہا کو منافع ہی دے گئی۔

پھر اس تخلیق کو ’چپکے چپکے،‘ ’گول مال‘ اور ’جانے بھی دو یارو‘ کے ساتھ بالی وڈ کی سدابہار کامیڈی کلاسک فلم کا درجہ مل گیا۔

اس فلم کو جتنی بار دیکھو مزا ہر مرتبہ ایک نیا آتا ہے۔ اداکاروں کی برجستہ اور بے ساختہ مکالمہ بازی اور دلچسپ ڈرامائی صورت حال فلم کا خاصہ رہی۔ راج کمار سنتوشی کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ فلم دل سے بنائی اور فلم کو دیکھنے کے بعد کہیں سے بھی یہ گمان نہیں ہوتا کہ یہ اُسی ہدایت کار کا شاہکار ہے جو اُس وقت ’گھائل‘ اور ’دامنی‘ جیسی سنجیدہ بلکہ رنجیدہ فلمیں بناچکے تھے۔

گردش میں تو یہ بھی خبریں رہیں کہ وہ فلم کا سیکوئل بنا رہے ہیں لیکن راج کمار سنتوشی کا کہنا ہے کہ وہ اس کلاسک کامیڈی کو کبھی بھی کیش نہیں کروائیں گے، کیونکہ اس طرح کی فلمیں برسوں بعد بنتی ہیں۔

ونے کمار سنہا تو اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ذرا سوچیں اگر اس دن وہ گھر کا کھانا راج کمار سنتوشی کو نہ کھلاتے تو کروڑوں فلم بینوں کے چہرے کھلکھلاتی مسکراہٹوں سے محروم رہ جاتے۔

زیادہ پڑھی جانے والی فلم