'چینی ڈیپ سی ٹرالرز کو لائسنس سے پاکستان کا سمندر بانجھ ہو جائے گا'

چند روز قبل چین سے کراچی کی بندرگاہ پر آئے 12 جدید ڈیپ سی ٹرالرز سے مقامی ماہی گیروں میں تشویش پائی جاتی ہے۔

ماہی گیروں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے دعویٰ کیا ہے کہ وفاقی حکومت ایک بار پھر پاکستان کی سمندری حدود میں واقع خصوصی معاشی زون میں بڑے پیمانے پر ڈیپ سی (گہرے سمندر میں) ماہی گیری کو فروغ دینے جا رہی ہے اور اس مقصد کے لیے چند دن قبل چین سے 12 جدید ڈیپ سی ٹرالر کراچی پہنچے ہیں۔ 

فشر فوک فورم نے آج (بدھ کو) 12 جدید ڈیپ سی ٹرالرز کی چین سے آمد اور آئندہ چند دنوں میں حکومت پاکستان کی طرف سے ڈیپ سی ماہی گیری کے لائسنس کے ممکنہ اجرا کے خلاف آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک ریلی نکالی، جس میں بڑی تعداد میں خواتین کے ساتھ ماہی گیروں نے شرکت کی۔

ریلی کے شرکا نے مطالبہ کیا کہ حکومت ڈیپ سی ماہی گیری کے لائسنس کا اجرا نہ کرے۔ واضح رہے کہ چند دن قبل قومی اسمبلی میں رکن اسمبلی عبدالقادر پٹیل اور دیگر ارکان نے ماہی گیروں میں پائی جانے والی تشویش کے حوالے سے توجہ دلاؤ نوٹس پیش کیا تھا، جس کے جواب میں وفاقی وزیر برائے جہاز رانی و بندرگاہ علی زیدی نے اعتراف کیا تھا کہ 'یہ ڈیپ سی ٹرالر چھ اگست کو پاکستان پہنچے مگر چوں کہ ڈیپ سی پالیسی کا اعلان نہیں ہوا اس لیے وہ بندرگاہ پر کھڑے ہیں اور ڈیپ سی ماہی گیری پر پابندی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد علی شاہ نے دعویٰ کیا: 'اگر حکومت نے ڈیپ سی ماہی گیری دوبارہ سے شروع کی اور چین کے جدید ڈیپ سی ٹرالروں نے ماہی گیری شروع کی تو آنے والے چند سالوں میں پاکستان کی سمندری حدود سے نہ صرف ہر قسم کی مچھلیوں کا خاتمہ ہوجائے گا بلکہ سمندر میں موجود مونگے کی چٹانوں اور دیگر سمندری حیات کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے گا۔'

اپنے اس دعوے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ 'ڈیپ سی ٹرالروں کا سائز بہت بڑا ہوتا ہے، جو کئی دن تک کھلے سمندر میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان ٹرالروں میں مچھلیاں پکڑنے والے جال کم از کم تین کلومیٹر لمبے ہوتے ہیں اور ان کا منہ امریکی مجسمہ آزادی کے سائز سے تین گنا بڑا ہوتا ہے، لہٰذا جب یہ جال پھینکا جاتا ہے تو یہ مچھلیوں کے ساتھ ساتھ سمندری حیات اور سمندر کی تہہ میں موجود مونگے کی چٹانوں کو بھی ساتھ لے آتا ہے۔' 

ان کے مطابق ڈیپ سی ٹرالر ایک ہی قسم کی مچھلی پکڑتے ہیں جسے ٹارگٹ فشنگ کہا جاتا ہے، لیکن اتنے بڑے جال میں ان کی مطلوبہ مچھلی کے ساتھ ساتھ دیگر سمندری جانور بھی آتے ہیں، جو پانی سے باہر نکلنے کے بعد مر جاتے ہیں، لیکن چونکہ ان کی ضرورت نہیں ہوتی، اس لیے انہیں دوبارہ سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے، جس سے سمندری آلودگی پھیلنے کے ساتھ ساتھ ان جانوروں کی نسل کا بھی خاتمہ ہوجاتا ہے۔

محمد علی شاہ نے مزید کہا: 'اگر اس طرح یہ عمل جاری رہا تو چند سالوں میں پاکستانی سمندری حدود سے نہ صرف مچھلیاں بلکہ دیگر سمندری حیات کا بھی خاتمہ ہوجائے گا اور پاکستانی سمندر بانجھ ہوجائیں گے۔'

ڈیپ سی ماہی گیری پالیسی کے مطابق پاکستان کے خصوصی معاشی زون کو تین حصوں میں بانٹا گیا ہے، جن میں پہلا حصہ ساحل سے 12 ناٹیکل میل، دوسرا 12 سے 20 ناٹیکل میل اور تیسرا 200 ناٹیکل میل تک ہے۔ پہلے زون میں ماہی گیری کے لیے سندھ حکومت لائسنس جاری کرتی ہے جبکہ باقی دو حصوں میں ماہی گیری کے لیے وفاقی حکومت لائسنس کا اجرا کرتی ہے۔ 

محمد علی شاہ کے مطابق پاکستان میں کل 40 لاکھ ماہی گیر ہیں جن میں سے ساحلی پٹی میں 25 لاکھ ماہی گیر ہیں اور ان میں سے 10 لاکھ کھلے سمندر یعنی ڈیپ سی میں ماہی گیری سے منسلک ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

'اگر ڈیپ سی ٹرالروں کو اجازت دے دی گئی تو چھوٹے ماہی گیر بے روزگار ہوجائیں گے۔ اس کے علاوہ 2009 سے 2016 کے درمیان ہونے والے فش سٹاک سروے میں سرکاری طور پر مانا گیا کہ پاکستانی حدود سے 70 فیصد مچھلی ناپید ہوگئی ہے، اس صورت میں اگر ڈیپ سی ٹرالر کو اجازت دی گئی تو باقی مچھلیاں بھی جلد ختم ہو جائیں گی۔'

دوسری جانب پاکستان کی سمندری حدود میں ڈیپ سی ٹرالروں کے لائسنس کا اجرا کرنے والی وفاقی وزارت برائے جہاز رانی و بندرگاہ کے ذیلی ادارے میرین فشریز ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر شازیہ ناز نے ان دعوؤں کی ترید کرتے ہوئے کہا ان کے ادارے نے اس وقت کسی ایک بھی ڈیپ سی ٹرالر کو لائسنس جاری نہیں کیا۔

 شازیہ نے بتایا: 'ہم نے 2009 سے ڈیپ سی ماہی گیری کے لیے ایک بھی لائسنس جاری نہیں کیا۔ 2018 میں ڈیپ سی ماہی گیری پالیسی تو بنائی گئی مگر اس کا نئے سرے سے جائزہ لینا ابھی باقی ہے، اس وقت ہم کوئی لائسنس جاری نہیں کرسکتے۔'

اس سوال کے جواب میں کہ کوئی لائسنس جاری ہوئے بغیر ہی چین کے 12 ڈیپ سی ٹرالر کراچی کیسے پہنچ گئے؟ انہوں نے بتایا: 'ہمیں اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہے کہ یہ ڈیپ سی ٹرالر کس کی اجازت سے آئے ہیں اور کیوں آئے ہیں۔ ہم ڈیپ سی ماہی گیری پالیسی کی منظوری تک کوئی لائسنس جاری نہیں کریں گے، باقی کوئی ٹرالر آئے تو آتا رہے'۔

شازیہ نے مزید بتایا کہ ڈیپ سی ماہی گیری کا لائسنس پالیسی کے تحت دیا جاتا ہے، جس میں سمندر کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا اور اس قسم کی ماہی گیری کے لیے ایک ضابطہ ہوتا ہے جس پر عمل کرنا لائسنس یافتہ پر قانونی طور پر لازم ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات