جلال الدین حقانی نے کون سی امریکی پیشکش ٹھکرائی؟

حقانی گروپ کے سابق سربراہ جلال الدین حقانی کی دوسری برسی کے موقعے پر ان کے بیٹے انس حقانی سے خصوصی انٹرویو جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کو امریکیوں نے کیا پیش کشیں کی تھیں۔

جلال الدین حقانی کی 1991 میں شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں اپنے دو کمانڈرو  کے ساتھ لی گئی ایک تصویر (اے ایف پی)

جلال الدین حقانی کا تو ویسے نام ہی کافی ہے۔ افغان طالبان کی جنگی قوت حقانی نیٹ ورک کی بنیاد رکھنے والے افغان عسکریت پسند کے طویل علالت کے بعد انتقال کی تصدیق دو سال قبل ستمبر 2018 میں کی گئی تھی۔ ان کی دوسری برسی کے موقع پر ان کے بیٹے انس حقانی نے ان کے بارے میں اپنی چند یاداشتیں انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ شیئر کی ہیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ ان کے لیے اپنے والد کے بارے میں کوئی بھی تحریر کاغذ پر اتارنے کا سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ ’میں بڑھا چڑھا‘ کر اسے پیش نہ کروں۔ ’یہی ممکنہ الزام میرا ہاتھ روک لیتے تھے لیکن دوست احباب کے علاوہ ان کے دشمن بھی ان کی صلاحیتوں کے معترف ہیں تو پھر میں کیوں نہ لکھوں۔ مجھے فخر ہے کہ دوست اور دشمن ہمیں تاریخ بنانے والے قرار دیتے ہیں۔‘

طالبان دور حکومت میں وزیر قبائلی امور و سرحد رہنے والے جلال الدین حقانی کے حقانی نیٹ ورک کو افغانستان میں نیٹو اور افغان افواج پر حملوں، کابل سمیت مختلف علاقوں میں شدت پسند واقعات کا الزام عائد کیا جاتا رہا ہے۔

جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے تھا اور وہ 1980 کی دہائی میں شمالی وزیرستان سے سابق سویت یونین کے افغانستان میں قبضے کے دوران عسکری طور پر منظم کارروائیوں کے لیے جاننے جاتے ہیں۔

انس حقانی گذشتہ دنوں افغان جیل سے رہا ہو کر آئے ہیں۔ اپنی اسیری کے دوران ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں قید تنہائی میں کئی روز سے رکھا جا رہا تھا۔ افغان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار قیدیوں کو دھوکہ دینے کے لیے حقوق انسانی کے کارکنوں کے طور پر ملتے تھے۔ سفید لباس میں ایک شخص قیدیوں کے پاس بھیجا گیا تاکہ ان سے تشدد یا مسائل کے بارے میں جان سکیں۔ جو قیدی شکایت کرتا اسے سزا کے طور پر مار پڑتی تھی۔‘

’اسی طرح یہ شخص میرے پاس بھی آیا اور مجھ سے میرا جرم دریافت کیا۔ اس سوال پر میں ہنس پڑا اور کہا کہ مجھے صرف میرے والد کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ میرا کوئی جرم نہیں تھا۔

’اس نے مجھے سے میرے والد کا نام پوچھا جب میں نے بتایا تو وہ خوف سے دورازے کی طرف ایسے لپکا جیسے میں پیچھے سے اس پر حملہ کر دوں گا۔ بعد میں میں اس واقعے پر کافی ہنسا۔

’جب میرے والد کے انتقال کی خبر سامنے آئی تو میں بگرام کی جیل کے بیت الخلا میں بطور سزا رکھا گیا تھا۔ امریکی اس خبر کو پہنچانے کے لیے میرے چچا حاجی مالی خان کو ساتھ لائے۔ اس موقع پر امریکیوں نے بھی میرے مرحوم والد کے لیے اچھے الفاظ استعمال کیے۔

’ہم نے اپنے والد کے ساتھ عجیب اتار چڑھاؤ دیکھے۔ وہ عملی طور پر ہمارے استاد تھے۔ وہ تعلیم کے حصول پر بہت زور دیا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے ہمیں کہا کہ نوجوانی میں ہی علم حاصل کیا جاسکتا ہے سیاست میں آپ بعد میں بھی داخل ہوسکتے ہیں۔  

’انہیں غاصبوں اور قابضوں سے شدید نفرت تھی۔ ایک روز وہ شام کی نماز ادا کرنے کے بعد رو رہے تھے۔ وجہ دریافت کی تو کہا کہ ’میں نے روسیوں کو اپنے ہاتھوں سے مارا ہے لیکن امریکیوں کو مارنے کا موقع نہیں ملا۔

’وہ کہا کرتے تھے کہ انہیں دنیا کے بڑے رتبوں کے لیے کوئی شوق نہیں ہے۔ غیرملکیوں سمیت کئی لوگوں نے مجھے ملک کی قیادت دینے کی پیشکش کیں لیکن میں نے مٹی کے اس کمرے میں رہنے کو ترجیح دی۔ انہوں نے بتایا تھا کہ جب امریکیوں نے افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے بااثر شخصیات سے رابطے کیے۔ انہوں نے میرے والد سے بھی مختلف ذرائع سے پیغامات بھیجے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’والد صاحب کا کہنا تھا کہ جب وہ بحثیت قبائلی امور آخری مرتبہ اس وقت پاکستان گئے تھے اور کئی ملاقاتیں کیں۔ وہاں وہ امریکیوں کے ایک سینیئر وفد سے بھی ملے۔ امریکیوں نے ان سے کہا کہ وہ افغانستان پر حملہ کرنے والے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ طالبان کو چھوڑ کر ان کے ساتھ نئے نظام کی تشکیل میں شامل ہو جائیں۔ ہم اس نئے نظام میں آپ کو قیادت کی پیشکش کرتے ہیں۔ میرے والد نے ان کو بتایا کہ آپ کے خیال میں کوئی حقانی اپنے مذہب اور عوام کو بیچ کر ملک کی قیادت لے لے گا؟ ایسا ممکن نہیں۔ افغانستان پر حملے کا ارادہ ترک کر دیں۔ میں آپ کو بھی اسی بندوق سے نشانہ بناؤں گا جس سے میں نے روسیوں کو بنایا۔ اس ملاقات کے ایک ماہ بعد 1998 میں امریکیوں نے ہمارا پکتیا میں مراکز پر کروز میزائل سے حملہ کیا۔‘

انس حقانی یہاں جلال الدین کے جنہیں وہ ’ابا‘ کہہ کر پکارتے تھے آخری ایام میں بیماری کو یاد کر کے لکھتے ہیں کہ ان کا آدھا جسم مفلوج ہوچکا تھا۔ ایک بازو اور ٹانگ پر فالج کا حملہ ہوا تھا۔

’وہ میرے ساتھ تعلیم کے بارے میں بحث کیا کرتے تھے۔ میں جب بھی ان سے ملنے جاتا تھا تو وہ مجھے ایک کتاب لانے کا کہتے تھے۔ ان کی یاداشت اتنی اچھی تھی کہ انہیں کتابوں کے رنگ بھی یاد رہتے تھے۔ جب میں ان سے کسی موضوع پر رائے مانگتا تھا تو وہ مجھے کسی کتاب اور کے کے باب تک کا حوالہ دیتے تھے۔ انہوں نے ہمیں انتقال سے قبل اپنی لائبریری کا خیال رکھنے کی خصوصی ہدایت دی تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا