بھاگ لگے رہن مولا خوش رکھے

صحافت اور پہلوانی کے اکھاڑے میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ اب جھگڑے اس بات پر ہوتے ہیں کہ کون کتنا بڑا پہلوان ہے۔

ایک اطالوی سٹریٹ آرٹسٹ کا فن پارہ (اے ایف پی)

پہلوان کا اکھاڑہ کہہ لیں یا ریس کا میدان، ہم میڈیا والے اس کے بغیر جی نہ پائیں گے۔ ہمارے لیے سوشل میڈیا لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔۔۔۔

سوشل میڈیا اور خاص طور پر ٹوئٹر کی محفل سیاست دانوں اور صحافیوں کے بغیر سونی نظر آتی ہے۔ پاکستان کے ٹوئٹر پر ویسے تو آئے روز کچھ نہ کچھ نیا چلتا ہی رہتا ہے جیسا کہ چند روز سے جنرل (ر) عاصم باجوہ کے مسئلے پر ہنگامہ آرائی اور خامہ فرسائی ہو رہی تھی لیکن گذشتہ روز ٹوئٹر کی محفل اس وقت گرم ہو گئی جب پاکستان کے صحافیوں رؤف کلاسرا اور اعزاز سید کے بیچ چند ٹویٹس اور ذیلی ٹویٹس کا تبادلہ ہوا۔

بس پھر کیا تھا ہر کونے کھدرے سے حامی اور مخالفین اپنے اپنے بیانیے کی طرف داری کرنے تیر کمان اٹھائے آ موجود ہوئے۔ بھائیو سوشل میڈیا پر جب بھی ہماری ایسی کوئی جنگ چھڑتی ہے تو یہ لڑائی چار مکھی ہوتی ہے۔ جہاں پلٹ پلٹ کر جھپٹا جاتا ہے اور جھپٹ جھپٹ کر پلٹے کھانے پڑتے ہیں۔

ٹوئٹر کا پلیٹ فارم اس وقت تک سونا پڑا رہتا ہے جب تک جذبہ جہاد پر چند ٹریند نہ بنیں اور جب تک چند صحافیوں اور ٹی وی اینکرز کی آپس میں نوک جھونک اور لڑائی نہ ہو۔ عاصم باجوہ وزیر اعظم سے اپنا استعفیٰ تو منظور نہ کروا سکے لیکن ان کی مبارک باد نے دو صحافیوں کے بیچ لڑائی ضرور کروا دی۔

عاصم باجوہ نے رؤف کلاسرا کو نیا ٹی وی چینل جوائن کرنے پر مبارک باد کی ٹویٹ کی جس پر رؤف کلاسرہ نے ان کو جواب میں کہا کہ 'ہم نے تو آپ پر ناقدانہ وی لاگ کیا لیکن آپ کا شکریہ کہ آپ نے مبارک باد دی۔' اس پر صحافی اعزاز سید نے رؤف کلاسرہ کی ٹویٹ کو سب ٹویٹ کیا اور کہا کہ ایسا کوئی ناقدانہ وی لاگ ان کی نظر سے نہیں گزرا۔ رؤف کلاسرا کی جوابی ٹویٹ نے ٹوئٹر پر ہنگامہ برپا کر دیا۔

 ٹویٹ میں اعزاز سید کو کہا گیا تھا کہ ’جب آپ نے ڈان ٹی وی میں نوکری لینے کے لیے اپنے سی وی میں میرا ریفرنس دیا تھا تو بیورو چیف ارشد شریف نے فون کر کے پوچھا تھا کہ کون ہے، تمہارا نام استعمال کر رہا ہے اور تمہیں انکار نہیں کر سکتا۔ کوئی سڑک چھاپ لگتا ہے۔ میں نے کہا اس کے گھر کا چولہا جل جائے گا دے دو۔‘

صحافی احمد نورانی بھی بیچ میں کود پڑے اور یوسف گیلانی کے دیے گئے پلاٹ اور سرکاری مکان کی بات کی تو جواب میں ان کو ان کی جھوٹی خبر شائع کرنے پر معافی مانگنا یاد کرایا گیا۔ چند صارفین نے تنقید کی کہ آپ کسی کے گھر کا چولہا کیسے جلا سکتے ہیں، یہ اللہ کا کام ہے۔ اگر کسی پر احسان کر ہی دیا تھا تو جتانے کی کیا ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ چند نے اس عمل کو سراہا اور جھوٹے کو گھر تک چھوڑ کر آنے کا کہا۔

اس کے بعد ڈان ٹی وی سے منسلک صحافی مبشر زیدی بھی اس گفتگو میں شامل ہوئے۔ جب انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وقت ڈان ٹی وی کا ایڈیٹر تھا اور اعزاز کو میں نے رکھا تھا اور کسی سفارش پر نہیں بلکہ اس کی اہلیت پر تو رؤف کلاسرا نے مبشر زیدی کو باور کرایا کہ مبشر نے ان کا 10 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنا ہے جو پیسے نہ ہونے کی وجہ سے وہ ابھی تک ادا نہیں کر پائے۔

اس سلسلے میں رؤف کلاسرا اور اعزاز سید سے رابطہ کیا گیا تو اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ’چونکہ میں اکثر تمام کالم اور اہم وی لاگز پڑھتا ہوں اس لیے میں نے سوچا کہ شاید کچھ مس ہو گیا ہے۔ ٹوئٹر پر ایک سوال چھوڑا کہ اگر کسی کی نظر میں کلاسرا صاحب کا باجوہ ایشو پر کوئی ناقدانہ وی لاگ، کالم یا ٹویٹ ہو تو مجھے ارسال کریں اتنی سی بات پر کلاسرہ صاحب غصے میں آ گئے۔‘

ان کا مطلب جو سمجھ آیا وہ یہی تھا کہ کہ رؤف کلاسرا نے جو وی لاگ کیا وہ ناقدانہ نہیں تھا۔ ریفرنس پر طعنہ دینے والی بات پر اعزاز سید نے کہا کہ ’صرف انہی کا نہیں جناب ابصار عالم اور مبشر زیدی کا نام بھی میرے ریفرنس میں رہا ہے۔ صحافت میں نام ریفرنس سے نہیں اپنے کام سے بنایا جاتا ہے۔ اگر لوگ مجھے جانتے ہیں تو میرے کام سے نہ کہ 10 سال پہلےمیرے سی وی میں لکھے کسی ریفرنس سے۔

'دوسری بات یہ ہے کہ کیا ریفرنس میں کسی کا نام لکھ دیا جائے تو کیا اس سے سوال پوچھنے کا حق چھن جاتا ہے۔ ابصار صاحب میرے ریفرنس میں تھے جب وہ چیئرمین پیمرا بنے ان سے سوالات کرتا تو وہ جواب دیتے کبھی ایک بار بھی نہیں جتلایا کہ تمھارے سوال کا جواب نہیں دوں گا کیونکہ تمھارے سی وی میں میرا ریفرنس تھا۔‘

رؤف کلاسرا سے رابطہ کیا گیا لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ ان سب میں سے کوئی بھی شاید غلط نہیں کیونکہ سب ہی اپنے طور پر بالکل درست بات کر رہے ہیں۔ تو پھر جب سب ہی خود کو درست سمجھتے ہوں تو غلطی کا امکان صفر رہ جاتا ہے۔

اپنے شعبے پر تنقید کرنا سب سے مشکل ہوتا ہے کیونکہ آپ صرف خود پر نہیں بلکہ اس شعبے سے منسلک اپنے ساتھیوں پر بھی تنقید کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے جب بھی سوشل میڈیا پر صحافیوں کے ایک دوسرے کو ٹارگٹ کیے جانے کو تنقید کا نشانہ بنایا تو اکثر صحافی مجھ سے ناراض ہوئے ہیں کیونکہ ہمارا کام دوسروں پر تنقید کرنا ہوتا ہے لہٰذا جب ہم پر کوئی تنقید کرے، چاہے وہ ہم میں سے ہی کیوں نہ ہو تو تنقید ہم سے برداشت نہیں ہوتی۔

حال ہی میں خواتین صحافیوں کی تقسیم کے موضوع پر لکھ کر مجھے اپنی ہی ساتھی خواتین کے ہاتھوں تنقید کا نشانہ بننا پڑا لیکن ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ صحافیوں کا کام صرف دوسروں کے گریبان پکڑنا نہیں بلکہ اپنے گریبانوں میں جھانکنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آج کا میڈیا چوک پر اپنے گندے کپڑے دھونے کا نام ہے۔ ہم سیاست دانوں سے لے کر ججوں تک، سب پر تنقید کرتے ہیں۔ معاشرے کے بگاڑ پر بات کرتے ہیں اور پھر دنیا کے سامنے اپنی لانڈری چوک پر دھوتے ہیں۔ جب سوشل میڈیا پر ہراسانی کی بات کی جاتی ہے تو میرا ماننا ہے کہ اگر ایک صحافی ہی دوسرے صحافی کو ہراساں کرے گا تو وہ حکومت سے یہ مطالبہ کیسے کرے گا کہ سیاست دان یا حکومتی میڈیا صحافیوں کو ہراساں کرنے کا سبب بن رہا ہے۔

دوسرا یہ کہ آپ کے پاس آپشن موجود ہے کہ آپ کمنٹ بند کر دیں یا محدود کر دیں۔ ڈی ایم محدود کر دیں۔ اس صورت میں کوئی کوشش کے باوجود آپ کو ہراساں نہی کر پائے گا جبکہ بلاک کا آپشن بھی موجود ہے۔ پھر ہراسانی کی صرف یہی صورت رہ جائے گی کہ کوئی آپ کی تصاویر یا ویڈیو شیئر کرا دے۔ ایسی صورت میں آپ کے پاس اس شخص کے خلاف کیس کرنے کا آپشن موجود ہو گا۔

لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ صحافی ایسا کیوں نہیں کرتے کیونکہ کمنٹ محدود کر دینے سے آپ کی ٹریفک بند ہو جائے گی اور آپ کا تذکرہ نہیں ہوگا، لوگ آپ کو خاطر میں ہی نہ لائیں گے۔ یہ ہمیں منظور نہیں کیونکہ سوشل میڈیا اور میڈیا کی دنیا 'جو دکھتا ہے وہی بکتا ہے' کے مصداق صرف ریٹنگ چاہتی ہے۔

صحافت اور پہلوانی کے اکھاڑے میں کچھ زیادہ فرق نہیں رہ گیا۔ اب جھگڑے اس بات پر ہوتے ہیں کہ کون کتنا بڑا پہلوان ہے۔ اس اکھاڑے میں جب حامی کودتے ہیں تو ان کے موقف سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اصل میں جنگ کس چیز کی ہے۔ اگر آپ کسی کے بیانیے کو نہ بھی جانتے ہوں تو نوک جھونک سے سب بیانیے صاف نظر آتے ہیں۔

ہم صحافیوں کے پاس سوشل میڈیا کی بڑی ٹیم بھی ہوتی ہے جو ہمارے بیانیے کو آگے بڑھاتی ہے۔ فالوورز کو بڑھانے اور ری ٹویٹس حاصل کرنے کے لیے سو سو جتن کرنا پڑتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے تماش بینوں کو بڑھانے کے لیے مداری نئے نئے کرتب دکھاتا ہے، ڈگڈگی کی آواز مزید بلند کرتا چلا جاتا ہے۔

جنرل صاحب کا استعفیٰ تو منظور نہ ہوا مگر صحافیوں کی نوک جھونک نے ٹوئٹر کی محفل کو چار چاند لگا دیے۔ ہم تو یہی کہیں گے کہ بھاگ لگے رہن مولا خوش رکھے کاروبار دنیا چلتا رہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹرینڈنگ