چار سالہ بچے پر بغیر ’اجازت‘ مجلس و جلوس کا مقدمہ معمہ بن گیا

ضلع گجرانوالہ میں مقامی عدالت نے اس مقدمے میں بچے اور دیگر ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری 10 ستمبر تک منظور کر لی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ بغیر اجازت مجلس منعقد کر کے لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے الزام میں درج کیا گیا  (اے ایف پی)

پنجاب کے ضلع گجرانوالہ میں کامونکی پولیس نے نو محرم کو مجلس کے انعقاد اور جلوس نکالنے پر ایک مقدمہ درج کیا ہے جس میں مبینہ طور پر چار سالہ بچہ فضل عباس بھی ملزم ہے۔

مقامی عدالت نے اس مقدمے میں بچے اور دیگر ملزمان کی ضمانت قبل از گرفتاری 10 ستمبر تک منظور کر لی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ مقدمہ بغیر اجازت مجلس منعقد کر کے لاؤڈ سپیکر ایکٹ کی خلاف ورزی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے کے الزام میں درج کیا گیا۔

متعلقہ پولیس افسر کے مطابق انہوں نے فضل عباس کو ملزم ٹھہرایا جو بچے کا چچا ہے ’ملزمان نے عدالت اور پولیس کو گمراہ کیا۔‘ پولیس افسر کے مطابق ’عدالت اور پولیس کو گمراہ کرنے پر ان کے خلاف زیر دفعہ 419 ایک اور مقدمہ بھی درج ہوا ہے۔‘

پولیس کے مطابق ملزم کی ولدیت تبدیل کرنے کا بہانہ بنا کر اس معاملے کو متنازع بنایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب متاثرین کا کہنا ہے کہ وہ پرانا گھنیاں کامونکی میں عرصہ دراز سے مجلس کا انعقاد کر رہے ہیں اور جلوس بھی نکالتے ہیں، اس مذہبی آزادی پر پولیس کارروائی بلاجواز ہے۔

بچے پر مقدمہ کیسے بن سکتا ہے؟

یہ سوال جب متعلقہ تھانے میں مقدمہ درج کرنے والے افسر سمیع اللہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ جس فضل عباس ولد عباس شاہ کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے وہ ملزم شاہد حسین ولد عباس شاہ کا بھائی ہے۔

پولیس اہلکار کے مطابق ان کے بیٹے کا نام بھی فضل عباس ہے لیکن ایف آئی آر میں جو ولدیت درج ہے وہ عباس شاہ ہے نہ کہ شاہد عباس اس لیے بچہ تو ملزم ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزمان نے عدالت کو بھی ’دھوکہ‘ دیا اور وہاں یہ بتا کر ضمانت قبل از گرفتاری منظور کرالی کہ یہ مقدمہ چار سالہ بچے کے خلاف درج کیا گیا۔

ملزمان کو شامل تفتیش کرنے کے حوالے سے سمیع اللہ کہتے ہیں کہ محرم الحرام کی ڈیوٹی اور دیگر مصروفیات کے باعث تفتیش کا آغاز نہیں ہوسکا۔ تاہم ان کے مطابق 10 ستمبر کے بعد ملزمان کو شامل تفتیش کیا جائے گا اور عدالت کے سامنے حقائق رکھے جائیں گے اور گرفتاریاں بھی عمل میں لائی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے ’دھوکہ دہی‘ سے متعلق ریکارڈ بھی عدالت کو پیش کر دیا گیا ہے۔

کیا پولیس موقف سے بچے کے ورثا متفق ہیں؟

شاہد حسین شاہ کے مطابق فضل عباس ان کا بیٹا ہے جس کی عمر چار سال کے قریب ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ چار بیٹیوں کے بعد ان کا بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے مجلس کے منتظمین میں اس کا نام بھی شامل کر لیا۔

ان کے مطابق ’یہ مجلس منعقد کرنے اور جلوس نکالنے پر پولیس نے تھانے میں بیٹھ کر خود ساختہ ایف آئی آر اپنی ہی مدعیت میں درج کر لی جس میں بغیر کسی تحقیق کے ان کے چار سالہ بیٹے فضل عباس کو بھی ملزم بنا دیا گیا۔‘ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے ولدیت کا بہانہ کر کے ان کے بھائی کو ملزم قراردے دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شاہد عباس نے کہا کہ مقدمہ اب عدالت میں ہے، وہاں ثابت کریں گے کہ مقدمہ ’بے بنیاد‘ اور ’من گھڑت‘ ہے اور بچے کو اس میں ملوث کیا گیا ہے۔ شاہد حسین شاہ کہتے ہیں کہ وہ شروع سے ہی یہاں مجلس اور جلوس کا اہتمام کرتے آئے ہیں لیکن پولیس پہلی بار رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نو محرم کی رات انہیں تھانے سے فون آیا کہ مجلس منعقد نہ کریں اور نہ جلوس نکالیں ورنہ ایف آئی آر درج کر لی جائے گی۔ شاہد حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے پولیس کو جواب دیا کہ وہ مجلس بھی منعقد کرائیں گے اور جلوس بھی نکالیں گے مقدمہ درج کرنا ہے تو کر لیں بعد میں دیکھ لیں گے۔

واضح رہے کہ پنجاب میں 2015 سے ساؤنڈ سسٹم آرڈیننس کے تحت لاؤڈ سپیکر کے استعمال اور بغیر اجازت مجالس منعقد کرنے اور جلوس نکالنے پر پابندی عائد ہے۔ محکمہ داخلہ صوبہ بھر میں اس قانون کی خلاف ورزی پر ہر سال مختلف مقامات پر کارروائیاں کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان