کئی ماہ کی تاخیر کے بعد بین الافغان مذاکرات کا کل سے دوحہ میں آغاز

امن مذاکرات کے آغاز کا اعلان اس میں حائل آخری رکاوٹ، یعنی مغربی ممالک کی چھ طالبان قیدیوں کی رہائی کی مخالفت، کے خاتمے کے بعد سامنے آیا۔ جمعرات کو طالبان نے کہ یہ چھ قیدی دوحہ پہنچے ہیں تاہم أفغان حکومت نے اس کی تصدیق نہیں کی۔

آٹھ جولائی 2019 کو دوحہ میں ہونے والے انٹرا افغان مذاکرات سے قبل طالبان کا وفد (اے ایف پی)

کئی ماہ سے تاخیر کا شکار طالبان اور افغان حکومت کے درمیان بین الافغان مذاکرات کا آغاز بالآخر ہفتے (کل) سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہو رہا ہے۔

حکام نے جمعے کو اس پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے امید کا اظہار کیا ہے کہ یہ مذاکرات افغانستان میں لڑی جانے والی 19 سالہ جنگ کے خاتمے اور ملک میں قیام امن کے لیے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو بھی واشنگٹن کے حمایت یافتہ ان مذاکرات میں شرکت کے لیے دوحہ پہنچ رہے ہیں کیونکہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نومبر میں ہونے والے انتخابات سے پہلے امریکی افواج کو ’لامتناہی جنگوں‘ سے نکالنے کے اپنے انتخابی وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانا چاہتے ہیں۔

انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز مارچ میں ہونا تھا لیکن قیدیوں کے تبادلے کے تنازع سے اس عمل میں کئی بار تاخیر کا سامنا کرنا پڑا تاہم غنی حکومت کی جانب سے تقریباً تمام جنگجوؤں کی رہائی کے بعد یہ مذاکرات بالآخر کل سے شروع ہو رہے ہیں۔

ادھر صدر ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا کہ پومپیو انٹرا افغان امن مذاکرات کے آغاز کے لیے قطر روانہ ہو رہے ہیں۔

دوحہ میں ایک تقریب کے بعد طالبان، افغان حکومت اور قطری عہدیداروں نے جمعرات کو اس بات کی تصدیق کی کہ مذاکرات ہفتے کے روز سے شروع ہوں گے۔

پومپیو نے ایک بیان میں ان مذاکرات کو دہائیوں کی جنگ اور خونریزی کے خاتمے کا ایک تاریخی موقع قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس موقع کو ضائع نہیں کیا جانا چاہیے۔‘

قطر کی وزارت خارجہ نے بھی کہا کہ یہ مذاکراتی عمل ’افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کی طرف ایک سنجیدہ اور اہم قدم ہے۔‘

افغانستان کے قومی مفاہمت کی اعلیٰ کونسل (ایچ سی این آر) کے سربراہ عبداللہ عبداللہ آج (جمعے کو) قطر کے لیے روانہ ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مفاہمتی کونسل نے ٹوئٹر پر کہا: ’ایچ سی این آر کو امید ہے کہ طویل انتظار کے بعد بات چیت ملک میں مستقل امن و استحکام اور جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گی۔‘

یہ مذاکرات اس وقت ہو رہے ہیں جب ڈونلڈ ٹرمپ کو 3 نومبر کے انتخابات میں غیر یقینی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے اور وہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی پر زور دیتے رہے ہیں۔ 

واشنگٹن اور طالبان کے مابین فروری میں ہونے والے معاہدے کے بعد جولائی میں امریکی فوج کی تعداد 12 ہزار سے کم ہوکر 8600 ہوگئی تھی اور اکتوبر میں امید ہے کہ مزید فوجیوں کے انخلا کے بعد یہ تعداد گھٹ کر ساڑھے چار ہزار رہ جائے گی۔

امن مذاکرات کے آغاز کا اعلان اس میں حائل آخری رکاوٹ کے خاتمے کے صرف چند گھنٹوں کے بعد کیا گیا۔ یہ رکاوٹ فرانسیسی اور آسٹریلین شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں میں ملوث چھ طالبان قیدیوں کی رہائی کا مسٔلہ تھا۔

پیرس اور کینبرا نے ان چھ شدت پسندوں کو آزاد کرنے پر اعتراض کیا تھا لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ ان طالبان کو قطر بھیج کر ایک سمجھوتہ کیا گیا ہے۔

جمعرات کی شب طالبان نے تصدیق کی کہ یہ چھ قیدی دوحہ پہنچے ہیں۔ اس سے قبل جمعرات کو ہی پاکستان میں ایک طالبان ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ انہیں ایک خصوصی طیارے پر کابل سے باہر روانہ کیا گیا تھا۔

ان چھ افراد میں ایک سابق افغان فوجی بھی شامل ہیں جن پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے 2012 میں پانچ فرانسیسی فوجیوں کو ہلاک اور 13 کو زخمی کیا تھا۔

آسٹریلیا کے تین فوجیوں کو قتل کرنے والے ایک اور سابق افغان فوجی بھی ان چھ افراد میں شامل تھے۔

طالبان عہدیدار نے بتایا کہ مہاجرین کے لیے اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی میں کام کرنے والی فرانسیسی خاتون بیٹینا گوئزلارڈ کو قتل کرنے والے دو اور طالبان قیدیوں کو افغانستان کے صوبے وردک میں رہا کیا گیا ہے۔

ابتدائی طور پر ان کی رہائی کی گوئزلارڈ کے اہل خانہ اور پیرس نے بھی مخالفت کیا تھی۔

دوسری جانب افغان حکومت نے فوری طور پر طالبان کے اس دعوے کی تصدیق نہیں کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا