افغان امن مذاکرات: چھ طالبان کی رہائی نئی رکاوٹ بن گئی

افغانستان میں قیام امن کی تازہ کوششوں میں ایک اور رکاوٹ سامنے آئی ہے کیونکہ لویا جرگے کی منظوری کے باوجود بعض مغربی ممالک چھ طالبان کی رہائی کے مخالف ہیں۔

400 افغان طالبان کی رہائی کی منظوری کے بعد 80 قیدی رہا ہو چکے ہیں جبکہ 320 کا معاملہ التوا کا شکار ہو گیا ہے (اے ایف پی)

افغانستان میں قیام امن کی تازہ کوششوں میں ایک اور رکاوٹ سامنے آئی ہے۔ طالبان کے 400 قیدیوں کی رہائی کی لویا جرگے کی منظوری کے باوجود اب بعض مغربی ممالک نے ان میں سے چھ کی رہائی نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ آخر یہ چھ طالبان قیدی کون ہیں؟

افغان حکومت نے اس تناظر میں جرگے کے فیصلے کے خلاف جاتے ہوئے باقی رہ جانے والے 320 قیدیوں کی رہائی بھی فل الحال روک دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان چھ کی قسمت کے فیصلے تک باقی کے 320 بھی رہا نہیں کیے جائیں گے۔

کابل کے اس اعلان سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں بین الافغان مذاکرات کے تحت پہلی مرتبہ براہ راست مذاکرات میں تاخیر پیدا ہوگئی ہے۔ یہ مذاکرات لویا جرگہ کے فیصلے کے بعد چند دن میں شروع ہونے کی توقع تھی جو اب ان 320 بشمول چھ کی رہائی کے فیصلے تک رک گئے ہیں۔

جرگے کے فیصلے کے بعد صدر اشرف غنی نے ان 400 انتہائی خطرناک کہے جانے والے قیدیوں کی رہائی کے پروانے پر دستخط کر دیے تھے اور ان میں سے 80 کے قریب رہا کر بھی ہوئے لیکن  بعض مغربی ممالک نے، جن میں یورپی اتحاد، آسٹریلیا اور فرانس شامل ہیں، اعتراض اٹھا دیا ہے۔

افغان قومی مصالحت کے ترجمان فریدون خضون نے صحافیوں سے ایک گفتگو میں اس تاخیر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ غیرملکی اتحادیوں کے اعتراض کے بعد اس معاملے میں پیش رفت روک دی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اعتراض کو دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تاکہ ان غیرملکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پر ان کا منفی اثر نہ پڑے۔

فرانس کی وزارت خارجہ نے 15 اگست کو پیرس میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’ان افراد کی رہائی کی پرزور مخالفت کرتا ہے جنہیں فرانسیسی شہریوں خصوصاً فوجیوں اور امدادی کارکنوں کے خلاف جرائم کی وجہ سے سزائیں مل چکی ہیں۔ 'تاہم انہوں نے ان مجرموں کی شناخت ظاہر نہیں کی۔

البتہ آسٹریلیا نے ایسی کسی لگی لپٹی سے کام نہیں لیا اور اپنے مجرم افغان نیشنل آرمی کے سپاہی حکمت اللہ کا نام لیتے ہوئے ان کی رہائی کی مخالفت کر دی۔

حکمت اللہ نے مبینہ طور پر اپنے ہی اتحادی آسٹریلیا کے فوجیوں پر حملہ کرکے تین کو ہلاک کر دیا تھا۔ باقی پانچ قیدیوں کے ناموں کا سرکاری طور پر اعلان تو نہیں کیا گیا لیکن انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی معلومات کے مطابق ان میں سید رسول، گل علی، محمد داود، اللہ محمد اور نقیب اللہ شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

افغان حکام کے مطابق باقی طالبان قیدیوں میں وہ ہیں جنہوں نے سفارت خانوں، عوامی چوراہوں اور سرکاری دفاتر پر حملے کیے جس کے نتیجے میں سینکڑوں افغان شہری اور اہلکار ہلاک ہوئے۔ تاہم طالبان اس سے انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے وطن کی خاطر قید کیے گئے۔

یہ تاخیر اگر اس سال نومبر تک بات چیت میں تعطل کا باعث بنتی ہے تو بعض تجزیہ کاروں کو خطرہ ہے کہ بین الاافغان مذاکرات کو دائمی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ نومبر میں اگر ڈونلڈ ٹرمپ ہار جاتے ہیں تو نئی امریکی انتظامیہ کی افغان پالیسی کیا ہوگی اس کا ان مذاکرات کے آغاز پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔

موجودہ امریکی صدر کہہ چکے ہیں کہ وہ اپنے دور میں امریکہ کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔

بعض مبصرین یہ الزام بھی لگاتے ہیں کہ خود افغان حکومت کو مذاکرات کے نتیجے کا علم ہے لہٰذا وہ مختلف حیلے بہانوں سے اسے موخر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا