ایران اور امریکہ عالمی عدالت میں مدمقابل

ایران کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر دوبارہ پابندیاں لگا کر دونوں ملکوں کے درمیان 1955 میں ہونے والے 'صلح کے معاہدے' کی خلاف ورزی کی ہے۔

امریکہ اور ایران اس بات پر بحث کریں گے کہ آیا دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی اس عدالت کو اقوام متحدہ  کے رکن ممالک کے درمیان تنازعات میں کردار ادا کرنے کا واقعی اختیار ہے یا ایسا نہیں ہے۔ (تصاویر: اے ایف پی)

امریکہ اور ایران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے تہران پر دوبارہ عائد کی گئی پابندیوں کے خلاف لڑائی کے سب سے بڑے راؤنڈ میں آج (پیر کو) کو اقوام متحدہ کی اعلیٰ عدالت میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایران کے ساتھ اہم عالمی ایٹمی معاہدے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی علیحدگی کے بعد امریکہ نے اس پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے بعد 2018 میں تہران واشنگٹن کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں لے گیا تھا۔

امریکہ اور ایران اس بات پر بحث کریں گے کہ آیا دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والی اس عدالت کو اقوام متحدہ  کے رکن ممالک کے درمیان تنازعات میں کردار ادا کرنے کا واقعی اختیار ہے یا ایسا نہیں ہے۔

ایران کا مؤقف ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اس پر دوبارہ پابندیاں لگا کر دونوں ملکوں کے درمیان 1955 میں ہونے والے 'صلح کے معاہدے' کی خلاف ورزی کی۔ یہ معاہدہ ایران میں 1979 کے انقلاب سے بہت پہلے کیا گیا تھا۔ انقلاب کے بعد ایران اور امریکہ کے تعلقات ختم ہو گئے تھے۔

2018 میں تہران کو اس وقت ابتدائی کامیابی ملی تھی جب عالمی عدالت انصاف نے حکم دیا تھا کہ مقدمے کو مجموعی طور پر نمٹانے کے عمل کے دوران ایران کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امدادی سامان کی ہنگامی فراہمی کے لیے پابندیاں نرم کی جائیں۔

امریکہ نے اس کے جواب میں وہ معاہدہ باضابطہ طورپر ختم کر دیا جو دونوں ملکوں کے دوران شاہ ایران کے دور میں کیا گیا تھا۔

امریکہ نے ایران پر الزام لگایا کہ وہ عالمی عدالت انصاف کو پروپیگنڈے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

امریکہ پیر کو پہلے عدالت کو بتائے گا کہ آیا اس کے ججوں کو اس مقدمے کی سماعت کا اختیار ہے یا نہیں جبکہ ایران بدھ کو اپنا مؤقف بیان کرے گا۔

سماعت کے اختیار کا فیصلہ ہونے میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں جبکہ حتمی فیصلہ آنے میں کئی سال لگیں گے۔

انقلاب کے بعد سے ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی چلی آ رہی ہے، جس میں مئی 2018 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے ساتھ ایٹمی معاہدے سے یک طرفہ علیحدگی کے  بعد اضافہ ہو گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین برطانیہ، فرانس، چین، روس، امریکہ اور جرمنی کے ساتھ معاہدے کے بعد ایران نے ایٹمی پروگرام کومحدود کر دیا تھا۔

بعد میں امریکہ نے ایران اور اس کے ساتھ کام کرنے والی کمپنیوں پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں۔ خاص طور پر تیل کے اہم ایرانی شعبے اور مرکزی بینک کو نشانہ بنایا گیا اور بڑی عالمی فرموں نے ایران میں اپنی سرگرمیاں روک دیں۔

عالمی عدالت انصاف میں تنازعے کے حل تک عبوری اقدامات کی ایرانی درخواست کے جواب میں دو سال پہلے ججوں کے علم میں آیا کہ ایران پر عائد بعض پابندیوں سے 1955 کے معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔

عدالت نے واشنگٹن کو حکم دیا کہ وہ ایران کو ادویات، طبی سامان، خوراک، زرعی اجناس اور طیاروں کے پرزوں اور سروسز کی فراہمی پر عائد پابندیاں اٹھا  لے۔

آئی سی جے ایک علیحدہ مقدمے کی سماعت بھی کر رہی ہے، جس میں ایران نے درخواست کی ہے کہ اسے امریکہ میں منجمد کیے گئے دو ارب ڈالر کے اثاثے واپس دلوائے جائیں۔

فروری 2019 میں عدالت نے کہا تھا کہ یہ مقدمہ آگے بڑھ سکتا ہے۔ عدالت نے امریکہ کا 'ایران کے ہاتھ آلودہ ہونے' کا مؤقف مسترد کردیا تھا، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مبینہ طورپر دہشت گرد گروپوں کی معاونت کر رہا ہے، اس لیے اسے یہ مقدمہ لڑنے کا حق نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا