ترک ہسپتال سے لبنانی جوڑے کا نوزائیدہ بچہ آخر گیا کہاں؟

چار ماہ قبل یہ جوڑا نئی اور بہتر زندگی کی امید لیے ترکی منتقل ہوا تھا لیکن اچھی زندگی کی بجائے انہیں اپنی اولاد کی جدائی برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

محمد سلیم اور    جاناں القضا نے ابھی اپنے نوزائیدہ بیٹے کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا (تصویر: پکسابے)

یہ کسی بھی والدین کے لیے بدترین خواب ہو سکتا ہے کہ ان کا نوزائیدہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر لاپتہ کر دیا جائے لیکن ایسا ہی کچھ استنبول کے ایک ہسپتال میں نوجوان لبنانی جوڑے کے ساتھ ہوا۔

27  سالہ محمد سلیم اور 23 سالہ جاناں القضا نے ابھی اپنے نوزائیدہ بیٹے کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں تھا جب ہسپتال کے عملے نے اسے اپنی والدہ کی گود سے اٹھا لیا جسے اس کے والدین پھر کبھی نہیں دیکھ پائے۔

عرب نیوز کے مطابق چار ماہ قبل یہ جوڑا نئی اور بہتر زندگی کی امید لیے ترکی منتقل ہوا تھا لیکن اچھی زندگی کی بجائے انہیں اپنی اولاد کی جدائی برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

ان غم زدہ والدین کا کہنا ہے کہ ہسپتال کے حکام ان کے بچے کی گمشدگی کی وضاحت دینے میں ناکام رہے ہیں۔

بیروت میں امریکی یونیورسٹی میں کام  کرنے والی جاناں کی والدہ ندا القضا نے بتایا کہ ’ان کی بیٹی (اپنی اولاد کے غم میں) نڈھال اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔‘

ندا نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’جاناں اپنے بچے کو بہتر زندگی دینا چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی لبنان چھوڑنے کا فیصلہ کیا کہ ان کے شوہر محمد سلیم لبنان میں ایک ہارڈ ویئر سٹور کے مالک تھے اور وہ خود بھی بیروت کے ایک نجی ہسپتال میں کام کرتی تھیں۔‘

 انہوں نے مزید کہا: ’استنبول میں ان دونوں کو کام مل گیا اور جاناں کی صحت حمل کے دوران نارمل تھی۔ تاہم حمل کے چھٹے ماہ میں ڈاکٹروں نے میری بیٹی کو بتایا کہ بچے کے دل کی دھڑکنیں سست پڑ رہی ہیں۔ ایک ماہ بعد جاناں نے پیٹ میں درد کی شکایت کی اور اس کے ڈاکٹر نے انہیں بتایا کہ اسے فوراً ہی بچے کو جنم دینا چاہیے۔‘

’یہی وہ لمحہ تھا جب جاناں اور محمد سلیم کا برا وقت شروع ہوا۔‘

محمد سلیم اور جاناں کا ترکی میں سہانی زندگی کا خواب ایک ڈراؤنے سپنے میں تبدیل ہو گیا۔

جاناں نے کہا کہ وہ جولائی سے ڈراؤنے خوابوں سے پیچھا نہیں چھڑا سکیں۔

انہوں نے کہا: ’میرے آنسو خشک ہو چکے ہیں لیکن میرے دکھ میں کوئی کمی نہیں آئی۔‘

ترکی میں اس جوڑے کے رہائشی اجازت نامے کی میعاد ختم ہوگئی ہے لیکن جاناں استنبول کے اوکمیدانی ہسپتال سے لاپتہ اپنے نوزائیدہ بچے کے بغیر وہاں سے جانے کو تیار نہیں ہیں۔

ایک غیر ترک شہری کی حیثیت سے، جاناں نے پانچ جولائی کو ہسپتال کو چار ہزار ترک لیرا ادا کرنے تھے لیکن جب انہوں نے مقامی حکام سے واقعے کی تحقیق کا مطالبہ کیا تو انہیں ہسپتال کے واجبات معاف کر دیے گئے۔

پیدائش کے وقت جاناں ہسپتال کے ڈیلیوری روم میں تنہا تھیں کیوں کہ وہاں دیگر خواتین کی ڈیلیوری کے باعث ان کے شوہر کو ان کے ساتھ رہنے کی اجازت نہیں تھی۔

جاناں کی والدہ بتاتی ہیں کہ جب ان کی بیٹی نے بچے کو جنم دیا تو وہ حیران رہ گئیں کہ بچہ ’اتنا چھوٹا اور نیلگون تھا۔‘

جاناں کی چیخوں کی آواز سنتے ہی ایک ڈاکٹر آیا اور نوزائیدہ بچے کو لے گیا۔ ماں کو بچے کی تصاویر لینے کے لیے اپنا فون استعمال کرنے کی اجازت بھی نہیں تھی۔

کچھ ہی لمحوں بعد، طبی عملے نے انہیں بتایا کہ ان کا بچہ ’فوت‘ ہو گیا ہے۔ جاناں نے باہر انتظار میں بیٹھے اپنے شوہر کو بلایا اور کہا کہ انہوں نے بچے کو روتے ہوئے سنا ہے۔

اس لمحے سے ہی اس جوڑے کی زندگی ’جہنم‘ بن چکی تھی۔

ساتھ والے کمرے میں ایک اور بچے کو جنم دینے والی خاتون نے جاناں کو بتایا کہ ان کا بچہ ابھی زندہ ہے جبکہ ہسپتال انتظامیہ نے جاناں کو بتایا کہ وہ مر گیا ہے۔

جب جوڑے نے بچے کی لاش واپس کرنے کا مطالبہ کیا تو انہیں متضاد جوابات دیے گئے۔ ہسپتال کے ریکارڈ میں نوزائیدہ کا کوئی سراغ نہیں ملا اور صرف ماں کا نام درج کیا گیا تھا۔

ایک ڈاکٹر نے طبی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ’بچہ زندہ پیدا ہوا تھا لیکن انتہائی نگہداشت میں رکھے جانے کے بعد اس کی موت ہوگئی‘، جبکہ دوسرے ڈاکٹر نے دعویٰ کیا کہ ’بچہ پیدائش کے دوران ہی مر گیا تھا اور نرس کے ذریعے بچے کی باقیات کو ٹھکانے لگا دیا گیا تھا۔‘

جوڑے نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں اور جاناں کی والدہ نے بیروت میں انسانی حقوق کی ایک تنظیم سے اس واقعے کی تحقیقات اور اپنی بیٹی کو نفسیاتی مدد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ترک حکام نے بھی تحقیقات کا آغاز کیا، لیکن وکیل کے مطابق یہ معاملہ بہت ہی سست روی کا شکار رہا جس کے بعد اس جوڑے کو ترک میڈیا میں اس معاملے کو اٹھانے کا مشورہ دیا گیا۔

جاناں کی والدہ نے بتایا کہ ترکی میں لبنانی سفارتخانے نے جوڑے اور ترک حکام سے رابطہ کیا۔ اس نے جوڑے کو بتایا کہ ’تفتیش کو تین نرسوں تک بڑھا دیا گیا ہے اور یہ کہ ہسپتال کے مردہ خانے کے منیجر اپنا سیل فون بند کرنے کے بعد گرڈ سے باہر چلے گئے۔‘

اس واقعے کے دو ماہ بعد بھی جاناں کو ابھی تک اپنے بچے کا پتہ نہیں چل سکا ہے جبکہ مقامی حکام جاناں اور اس کے شوہر پر ملک چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

تاہم جوڑے کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک ترکی نہیں چھوڑیں گے جب تک کہ وہ حقیقت کو نہیں جان پاتے۔

محمد سلیم اپنی ملازمت سے محروم ہوچکے ہیں اور جاناں کی والدہ کے مطابق وہ نئے رہائشی اجازت نامے کی امید میں بے بی سٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔

ندا نے کہا: ’وہ لبنان واپس آنے سے پہلے حقیقت جاننا چاہتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جوڑے نے اپنے کھوئے ہوئے بیٹے کا نام ’محمد‘ رکھا ہے۔

جاناں کی والدہ کہتی ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ یہ معاملہ ترک صدر رجب طیب اردوغان تک پہنچے۔ ہمارے پاس دستاویزات موجود ہیں لیکن وہ بے ربط ہیں۔ میری بیٹی نے اپنے نوزائیدہ بچے کی موت پر سمجھوتہ کر لیا ہے لیکن وہ حقیقت جانے بغیر آرام سے نہیں بیٹھے گی۔‘

اس واقعے کے بارے میں بہت سارے نظریات سامنے آ رہے ہیں لیکن جاناں نے کسی بھی دعوے پر یقین کرنے سے انکار کردیا ہے۔

کیا یہ ممکن ہے کہ بچہ انسانی اعضا میں غیر قانونی تجارت کے لیے استعمال ہوا ہو؟ خیال کیا جاتا ہے کہ ترکی میں 1500 سے زیادہ بچے پراسرار حالات میں غائب ہو چکے ہیں۔

’میں اس امکان کے بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتی کیونکہ ایسا سوچنا بھی مجھے مار ڈٓالے گا۔‘

لبنانی وکیل پال مارکس نے ترک ہسپتال کے معاملے سے نمٹنے کے حوالے سے سوالات اٹھائے ہیں اور یہ پوچھا ہے کہ اس نے جوڑے سے فیس وصول کرنے یا ہسپتال کے بل لینے سے انکار کیوں کیا؟

انہوں نے ہسپتال انتظامیہ کے متضاد بیانات اور مردہ خانے کے انچارج کی ’گمشدگی‘ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اصل میں ہوا کیا ہے اور ہم لاش کو بازیاب کرنا چاہتے ہیں تاکہ منظم جرم کے امکان کو خارج کیا جا سکے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی