سنکیانگ: چین کا گرتی شرح پیدائش کا اعتراف

چینی حکام نے تصدیق کی ہے کہ 2017 اور 2018 کے درمیان سنکیانگ میں بچوں کی پیدائش میں ایک تہائی کمی ہوئی ہے تاہم ان کا دعویٰ ہے خواتین کو بانجھ بنانے کے عمل زبردستی نہیں بلکہ ان کی رضامندی سے کیے گئے۔

چین کے دوردراز کے مغربی صوبے سنکیانگ میں حکام کی جانب سے اویغور مسلمان خواتین کو زبردستی بانجھ بنانے کے الزامات کے بعد چینی حکام نے تصدیق کی ہے کہ سنکیانگ میں شرح پیدائش تیزی سے کم ہوئی ہے۔ 

امریکی نشریاتی ادارے 'سی این این' کو بھیجے گئے چھ صفحات کے خط میں سنکیانگ کی حکومت نے خواتین کو زبردستی بانجھ بنانے کے عمل کی تردید کی ہے اور اس کی بجائے دعویٰ کیا ہے کہ ایسے پروسیجر خواتین کی رضامندی سے کیے گئے۔ تاہم حکومت نے  تصدیق کی کہ 2017 اور 2018 کے درمیان علاقے میں بچوں کی پیدائش میں ایک تہائی کمی ہوئی ہے۔

چینی حکام کا جواب امریکی نیوزنیٹ ورک کی جانب سے شائع ہونے والی اس رپورٹ کے ایک ماہ بعد دیا گیا ہے جس میں اویغور برادری کے مبینہ استحصال کی مہم کے بارے میں بتایا گیا تھا۔

اس رپورٹ میں خواتین کو زبردستی بانجھ بنانے اور شرح پیدائش کم کرنے کے لیے بچہ دانی میں آلات (آئی یو ڈیز) لگانے کے دعوے شامل ہیں۔

امریکی رپورٹ میں کمیونزم سے متاثرہ افراد کے لیے قائم تنظیم وکٹمز آف کمیونزم میموریل فاؤنڈیشن میں سینیئر فیلو ایڈریئن زنز کے شائع کردہ اعداوشمار بیان کیے گئے ہیں جنہوں نے چین کی سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیا جن میں بتایا گیا ہے کہ علاقے میں 2016 میں ایک لاکھ خواتین میں سے 50 کو بانجھ بنایا گیا جبکہ 2018 میں یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ خواتین میں سے 250 ہو گئی۔ یہ بانجھ بنانے کے عمل میں پانچ گنا اضافہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زنز نے کہا ہے کہ خواتین کو مبینہ طور پر جبری بانجھ بنانے کی کارروائی اقوام متحدہ کے نسل کشی کے خلاف کنونشن کے آرٹیکل دو کی خلاف ہو سکتی ہے جو کسی مذہبی گروپ پر 'ایسے اقدامات مسلط کرنا جن کا مقصد بچوں کی پیدائش کو روکنا ہو' کے حوالے سے ہے۔

لیکن سنکیانگ کی حکومت نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے اصرار کیا ہے کہ حالیہ برسوں میں اویغور آبادی میں 'مستقل طور پر اضافہ' ہوا ہے۔

سرکاری اعدادوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سنکیانگ کی آبادی میں 2010 سے 2018 کے درمیان 30 لاکھ سے زیادہ کا اضافہ ہوا۔

حکومت نے کہا: 'اویغور اور دوسری لسانی اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا مکمل تحفظ کیا جا رہا ہے۔ نام نہاد 'نسل کشی' خالصتاً فضول بات ہے۔'

تاہم حکومت نے اس بات کی تردید نہیں کی 2017 میں علاقے میں ایک ہزار میں شرح پیدائش تقریباً 16 افراد تھی جو 2018  میں کم ہو کر ایک ہزار میں 11 افراد رہ گئی۔ حکومت نے کہا ہے کہ ایسا 'خاندانی منصوبہ بندی کی جامع پالیسی پر عمل درآمد سے ہوا۔'

چین نے 2016 میں دو بچوں کی پالیسی پر عمل کرنا شروع کر دیا تھا جس کے تحت اویغوروں سمیت جوڑوں کو دو بچوں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ اگرچہ دیہی برادریوں میں رہنے والے اویغور تین تک بچے پیدا کر سکتے ہیں۔

'سی این این' کو بھیجے گئے خط میں لکھا گیا: '2017 کے مقابلے میں 2018 میں بچوں کی پیدائش میں تقریباً ایک لاکھ 20 ہزار کی کمی ہوئی۔ اس تعداد میں تقریباً 80 ہزار کی کمی قانون کے مطابق خاندانی منصوبہ بندی کی پالیسی پر بہتر عمل درآمد سے ہوئی۔'

چین پر طویل عرصے سے الزام لگایا جا رہا ہے کہ وہ اقلیتی اویغور آبادی کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے۔ سمجھا جارہا ہے کہ تقریباً 10 لاکھ اویغوروں کو ان کیمپوں میں حراست میں رکھا گیا ہے جنہیں چینی حکومت ایسے کیمپ کہتی ہے جہاں 'دوبارہ تعلیم دی جاتی ہے۔'

امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق بڑے پیمانے پر حراست میں رکھنے کی کارروائیاں مبینہ طور پر آبادی پر قابو پانے کے اقدامات پر عمل میں ناکامی کی صورت میں دھمکی اور سزا دونوں کا کام دیتی ہیں۔

اے پی کو پتہ چلا ہے کہ لوگوں کو حراستی کیمپوں میں بھیجنے کی بڑی وجہ زیادہ بچے ہیں۔ تین یا اس سے زیادہ بچوں کے والدین کو بھاری جرمانے ادا نہ کرنے کی صورت میں ان کے خاندانوں سے الگ کر دیا گیا۔

 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا