’کینسر سے بچ گئی، اب میں کرونا سے نہیں مرنا چاہتی‘

جرمنی میں مقیم ایوارڈ یافتہ صحافی روؤنا میئر کینسر سے صحت یاب ہو رہی تھیں کہ اسی دوران یورپ کرونا وائرس کی لپیٹ میں آ گیا۔ اس بارے میں وہ لکھتی ہیں: ’میں نے سوچا، میری قبر کے کتبے پر کیا لکھا ہو گا؟ کینسر سے بچی، کرونا سے مر گئی؟‘

(اے ایف پی)

’معاف کیجیے مسز میئر مگر سیاہ جلد کے ساتھ یہ ہمیشہ مشکل ہوتا ہے۔‘ گھڑی کے کام کی طرح، فلیبوٹومسٹ نے خون نکالنے کی مسلسل جدوجہد کے دوران میرے بازو میں سوئیاں گھساتے ہوئے یہ عذر پیش کیا جو جرمنی میں اب ایک معمول بن چکا ہے۔

میں اس بات کے جواب میں اسے لیکچر دینے کے لیے اپنا منہ کھولنے ہی والی تھی جب میری نظر ایک چھوٹے سے دھاتی باکس پر پڑی جس پر میرا نام اور تاریخ پیدائش درج تھی۔

میں 36 سال کی تھی جب مجھ میں چھاتی کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس باکس میں ایک تابکار مادہ تھا جس سے یہ جانچ ہونا تھی کہ آیا میرے سینے میں رسولی پھیل گئی ہے۔

میں نے یہ جاننے کو ترجیح دی کہ میں اب مزید کتنا عرصہ زندہ رہوں گی بجائے اس کے کہ میرے سامنے موجود یہ خاتون نسل پرست ہے یا نہیں۔

میں نے اپنی ہتھیلی کے اوپری حصے پر انگلیاں ماری جہاں ایسا کرنے سے ہمیشہ تین رگیں ظاہر ہو جاتی ہیں اور خون نکالنے کے لیے تیار رہتی ہیں۔

جرمنی میں چھاتی کے کینسر کے سالانہ 69 ہزار کیس سامنے آتے ہیں اور چار دسمبر 2018 کو میں بھی باضابطہ طور پر اس فہرست میں شامل ہو گئی لیکن یہ مجھے کم از کم دو سال پہلے سے ہی معلوم ہو چکا تھا۔

2016 میں میرے اس وقت کے گائناکالوجسٹ نے مجھے فائبروئڈز کو کم کرنے کے لیے کچھ دوائیں دیں جس کے نتیجے میں میری ایک چھاتی کی نپل پر بالوں کا اضافہ ہوا۔ میں نے فوراً ہی ان دوائیوں کو روک دیا اور ہسٹریکٹومی (رحم نکلوانے کی سرجری) سے گزری اس امید کے ساتھ کہ فائبروئڈز سے ہمیشہ کے لیے جان چھوٹ جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہفتوں بعد جب میں شاور لے کر باہر نکلی اور (shea butter) نباتاتی مکھن اپنے سینے پر ملا تو مجھے احساس ہوا کہ یہ جگہ ناہموار ہے اور غیر معمولی طور پر ابھری ہوئی ہے۔

اس کے بعد دو سالوں تک میری اپنے گائناکالوجسٹ سے تکرار جاری رہی۔ ابتدائی الٹراساؤنڈ کے بعد انہوں نے کہا کہ وہ آبلے ہیں۔ بعد میں انہوں نے کہا کہ گلٹیاں صرف ٹشو میں تھی کیوں کہ میں کوئی بہت فربہ خاتون نہیں تھی۔ آخر کار انہوں نے اس کا الزام میری ویٹ لفٹنگ کی مشق کو ٹھہرایا۔

میں نے ویٹ لفٹنگ کا شوق ترک کر دیا اور ایسے ہی زندگی گزارنے کی کوشش کی۔

ایک دن کچھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد میں اچانک گر گئی۔ میں اب وہ عورت نہیں تھی جو آدھی میراتھن تک دوڑ سکتی تھی۔ جیسے ہی گلٹی سخت ہونا شروع ہو گئی اسی طرح میرا عزم بھی مضبوط ہونا شروع ہو گیا۔ میں نے میموگرام (چھاتی کا ایکس رے) کے لیے اپنے گائناکالوجسٹ سے لڑنا شروع کیا۔

آخر کار 13 نومبر 2018 کو ایک ٹیکنیشن نے میری چھاتیوں کا ایک ایسی مشین میں ٹیسٹ لیا جو فوٹو کاپی مشین کی طرح نظر آ رہی تھی۔

جب میں ہنسنے لگی تو اس نے پوچھا: ’کیا یہ آپ کا پہلا میموگرام ہے؟‘

کھسیانی ہنسی کے دوران میں نے ہاں میں سر ہلایا۔ سرد سطح نے میرے نپلز کو سخت کر دیا تھا۔

ٹیکنیشین نے اپنی ہتھیلی کے بیچ میں اپنا انگوٹھا گھساتے ہوئے میرے لیے جرمن زبان میں نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

کیمو تھراپی کے بعد اصل خوش قسمتی ظاہر ہوئی۔ 24 جولائی 2019 کو مجھے بتایا گیا کہ میرے مرض میں کمی واقع ہوئی ہے۔ کینسر میرے لمف نوڈز تک نہیں پھیلا تھا اور چھ ماہ کی کیموتھراپی 100 فیصد کامیاب رہی۔ ایسا ہر کسی کے ساتھ نہیں ہوتا۔ جرمنی میں میری غلط تشخیص ہوئی تھی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جرمنی نے ہی میری جان بچائی تھی۔

میں نے ایک سال تک دوا ہرسیپٹن انفیوژن لینا جاری رکھا۔ ہر تین ہفتوں بعد منگل کے دن میں دوسرے مریضوں کے ساتھ انجیکشن دینے والی کرسی پر بیٹھتی اور ریڈیو سنتی۔ روڈ سٹیورٹ کا گانا ’بیبی جین‘، پیٹ شاپ بوائز کا ’ویسٹ اینڈ گرلز‘ اور میکسی پریسٹ کا ’کلوز ٹو یو‘ بھی۔

اور پھر کووڈ 19 نازل ہو گیا۔

جب کرونا (کورونا) وائرس نے یورپ میں اپنے پنچے گاڑنا شروع کیے تھے تب ہماری گفتگو کا موضوع ہمارے سفید خلیوں کی تعداد کی بجائے اس نئی بیماری کے متعلق بن گیا تھا۔

ہم ماہرین کی اس بارے میں رائے سنتے تھے کہ اس کا ہمارے لیے کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ اس میں ہمارے لیے کوئی بھی اچھی خبر نہیں تھی۔ خاص طور پر 10 مارچ 2020 کو ہماری مایوسی میں اس وقت اضافہ ہو گیا جب ہم نے ایک نیوز بلیٹن میں سنا کہ اٹلی نے لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا ہے۔

کینسر نے پہلے ہی مجھے اس حوالے سے کسی حد تک تیار کر دیا تھا۔ میڈیکل گریڈ کے ماسک، دستانے اور بار بار ہاتھ دھونے کی وجہ سے میں کیموتھراپی کے دوران فلو یا کسی بھی قسم کی بیماریوں سے محفوظ رہی تھی۔ جو میں سمجھ نہیں پا رہی تھی وہ یہ تھا کہ میرے شوہر سمیت پوری دنیا اسے سنجیدگی سے کیوں نہیں لے رہی۔

’میں کینسر سے بچ کر کووڈ 19 کی وجہ سے نہیں مر سکتی۔ یہ میری قبر کے کتبے پر کیسا لگے گا؟‘ یہ میںاپنے شوہر پر چلاتی اور انہیں ماسک، دستانے پہننے اور سینیٹائسر اور بلیچ کے ساتھ باہر نکلے کا کہتی۔

ہسپتالوں میں تیمارداروں پر پابندی لگنے سے بہت پہلے ہی میں نے گروسری شاپنگ صرف آن لائن کرنا شروع کی۔ ہمارے گھر آنے والی ہر شے پر بلیچ کا سپرے کیا گیا۔ ہم کوڑا پھنکنے کے لیے بھی دستانے اور ماسک پہن کر جاتے تھے۔

مجھے حیرت ہوئی کہ حکومت نے 22 مارچ کے لاک ڈاؤن کے اعلان سے پہلے اس طرح کی دلیری کا مظاہرہ کیوں نہیں کیا۔ میں نے اپنے آخری ہرسیپٹن انفیوژن کے سیشن کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ مجھے دوسری پریشانی بھی لاحق تھی۔ میرے چہرے کے ماسک اور دستانوں کا کینسر سے پہلے والا ذخیرہ کم ہو رہا تھا اور یہ اب دنیا بھر میں بھی نایاب ہو رہے تھے۔ میرے ملک کی طرح مجھے بھی چین سے سستے فیس ماسک اور دستانے خریدنا تھے۔

چھاتی کا کینسر سب سے عام کینسر ہے جو سالانہ 21 لاکھ خواتین کو متاثر کرتا ہے اور کینسر سے ہونے والی اموات کی سب سے بڑی تعداد کا سبب بنتا ہے لہذا میں نے ایسے دن گزارے ہیں جب میں نے خود کو زندگی سے زیادہ موت کو قریب محسوس کیا۔ اب میں دوسرے ’بگ سی‘ (کووڈ 19) سے خوفزدہ ہوں۔ ہر کھانستا شخص، گلی سے ماسک کے بغیر گزرتا ہوا ہر شخص مجھے اپنی زندگی کے لیے خطرہ نظر آتا ہے جس سے مجھے دور بھاگنا ہے۔

میں اس حقیقت کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتی کہ میں شاید ایک مہلک مرض سے تو بچ جاؤں لیکن ایک متعدی بیماری سے میرا خاتمہ ہو جائے۔

یہ عجیب ستم ظریفی ہی ہے کیوں کہ میں کینسر کے مریضوں کے لیے کہتی ہوں کہ کووڈ کے بعد کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس وقت تک جب تک یہ وائرس اور غیر ذمہ دار افراد موجود ہوں گے ہماری خوفناک موت کا خطرہ موجود رہے گا۔

 

روؤنا میئر ایک ایمی ایوارڈ یافتہ صحافی ہیں جن کا نائجیریا، جنوبی افریقہ، برطانیہ اور جرمنی میں 17 کا تجربہ ہے۔ وہ جرمنی میں اپنے خاندان کے ساتھ مقیم ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت