کیا نیشنل بینک کے صدر کی تعیناتی خلافِ ضابطہ ہوئی ہے؟

نیشنل بینک آف پاکستان کے سی ای او/صدر کی تقرری پر سوالات تو پہلے ہی دن سے اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن اب اس معاملے پر نیشنل بینک کی ٹریڈ یونین فیڈریشن نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

عدالت میں ڈپٹی سیکرٹری فنانس نے تسلیم کیا کہ صدر این بی پی عارف عثمانی کی تعلیمی قابلیت بی اے فزکس ہے (سوشل میڈیا)

وفاقی حکومت کی جانب سے نیشنل بینک آف پاکستان کے سی ای او/صدر کی تقرری پر سوالات تو پہلے ہی دن سے اٹھائے جاتے رہے ہیں لیکن اب اس معاملے پر نیشنل بینک کی ٹریڈ یونین فیڈریشن نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کر دیے ہیں جبکہ تقرری ’خلاف ضابطہ‘ ہونے کے ثبوت بھی عدالت میں جمع کرا دیے گئے ہیں۔

عدالت میں ڈپٹی سیکرٹری فنانس نے تسلیم کیا کہ صدر این بی پی عارف عثمانی کی تعلیمی قابلیت بی اے فزکس ہے۔

موجودہ حکومت نے اس عہدے کے لیے پہلے سے موجود کم از کم تعلیمی قابلیت ماسٹر ڈگری سے تبدیل کر کے بیچلر ڈگری رکھی تھی۔ 

ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ سٹی بینک نائجیریا میں ڈیوٹی کے دوران ’منی لانڈرنگ‘ کے مقدمے کا بھی سامنا کر چکے ہیں۔ 

وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی تقرری سٹیٹ بینک کی کلیئرنس کے بعد طے شدہ ضابطہ کے تحت کی گئی ہے۔

صدر این بی پی کی تقرری اور اعتراضات:

جنرل سیکرٹری نیشنل بینک آف پاکستان ٹریڈ یونین فیڈریشن سید جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عدالت میں ثبوت کے طور پر ویڈیو پیش کی ہے جس میں عارف عثمانی پشاور میں ایک تقریب کے دوران اپنی تقرری کی کہانی خود بیان کر رہے ہیں۔

سید جہانگیر کے مطابق ویڈیو میں عارف عثمانی کہتے ہیں کہ ’میں اسد عمر کو جانتا ہوں کیونکہ میں نے اپنے بڑے بھائی منیر کمال کے ساتھ خدمت کی ہے۔ منیر کمال نے مجھے بتایا کہ اسد عمر بینکر کو تلاش کر رہے ہیں اور میں اسد کو پیغام بھیجتا ہوں۔ اس کے بعد میرا ان سے رابطہ ہوا تو اسد نے مجھے پبلک پرائیویٹ آرگنائزیشن وغیرہ کے بارے میں بتانا شروع کیا۔‘

سید جہانگیر کہتے ہیں کہ ضابطوں کے مطابق 1997 میں بینک نیشنللائزیشن ایکٹ 1974 میں ترمیم کے بعد بینک کے امور کو چلانے اور قانون کے تحت اختیار کردہ قانون اور طریقہ کار کے مطابق صدر / سی ای او مقرر کیا جاتا ہے۔

’وزارت خزانہ (ایم او ایف) نے این بی پی کے صدر کے لیے 30-09-2018 کو اشتہار شائع کیا اور اس اشتہار میں کہا گیا کہ ’فنانس ڈویژن کے لیے صدر / سی ای او ، نیشنل بینک آف پاکستان (این بی پی) کے عہدے کے لیے متحرک اور اہل کل وقتی پیشہ ور افراد کی خدمات کو بینکوں (نیشنلائزیشن ایکٹ) 1974 کے مطابق پر کرنا ضروری ہے۔‘

’اس کے مطابق درخواست دہندگی یا اہلیت کے عزم کے وقت 1974 میں قائم کردہ تمام معیار کو پورا کیا جانا چاہیے تھا۔‘

ان کے مطابق ’وزارت خزانہ نے بینکنگ، فنانس، اکنامکس، بزنس ایڈمنسٹریشن یا (این بی پی) کے سابقہ ​​دو صدور کی تقرری کے لیے متعلقہ شعبوں میں کم سے کم ماسٹرز ڈگری طے کی۔ مورخہ 17-09-2013 کو اشتہار کے مطابق اقبال اشرف کو صدر مقرر کیا گیا تھا اور سعید احمد بطور صدر 09-01-2017 کو بذریعہ اشتہار صدر مقرر ہوئے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’اشتہار کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ 2018 میں صدر این بی پی کی تقرری کے لیے کم سے کم قابلیت میں نرمی کی گئی ہے اور عارف عثمانی کو کامیابی کے ساتھ مقرر کیا گیا ہے۔‘

سید جہانگیر کے مطابق سابقہ ​​اشتہاروں کے مقابلے میں دیکھا جائے تو عارف عثمانی بی ایس سی فزکس ہونے کے باعث شرائط پر بھی پورا نہیں اترتے۔

’سلیکشن بورڈ نے سی ای او کے لیے امیدوار کے انتخاب کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان فٹ اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مناسب پیمانے پر بھی سرقہ کی۔ فٹ اور مناسب معیار کی شق 4 (ii) سی بیان کرتی ہے کہ امیدوار کے پاس بینکنگ، فنانس، اکنامکس، بزنس ایڈمنسٹریشن اور متعلقہ فیلڈ میں کم سے کم بیچلرز قابلیت ہونی چاہیے۔‘

انہوں نے الزام عائد کیا کہ عارف عثمانی 2003 میں نائیجیریا میں انسداد منی لانڈری کیس میں مبینہ طور پر ملوث ہیں جب وہ 2002 میں سٹی بینک آپریشنز کے منیجنگ ڈائریکٹر تھے جبکہ انہوں نے ایس بی پی کے ساتھ اس کا انکشاف نہیں کیا تھا۔

چیف ترجمان سٹیٹ بینک آف پاکستان عابد قمر کے مطابق سٹیٹ بینک نے عارف عثمانی کو بحیثیت صدر / سی ای او این بی پی کی حیثیت سے فٹ، مناسب اور ضروریات کے مطابق ان کی فٹنس کا اندازہ کرنے کے بعد منظوری دی تھی۔

’سٹیٹ بینک کو نائیجیریا میں ان کے کسی بھی منی لانڈرنگ کے معاملے میں ’ملوث‘ ہونے سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا۔‘

حکومتی وضاحت:

اس معاملہ پر بات کرنے کے لیے وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ صدر نیشنل بینک عارف عثمانی کو طے شدہ قوائد و ضوابط کے مطابق تعینات کیا گیا ہے۔ ’ان کی تقرری میں انہوں نے کسی کو سفارش نہیں کی بلکہ رزاق داؤد اور عشرت حسین کی موجودگی میں سلیکشن کمیٹی نے ان کا انٹرویو لیا تھا اور سلیکشن کی تھی۔‘

اسد عمر نے کہا کہ طریقہ کار کے مطابق سٹیٹ بینک نے ان کی کلیئرنس دی اور ضروری چھان بین بھی ہوئی تھی۔ دوسری بات یہ کہ پہلی سلیکشن تو جاوید قریشی کی ہوئی تھی انہوں نے انکار کیا تو بطور دوسرا آپشن عارف عثمانی تھے تو ان کا تقرر کیا گیا۔

صدر نیشنل بینک عارف عثمان سے ان کے خلاف الزامات اور عدالتوں میں درخواستوں کے بارے پوچھنے پر انہوں نے کہا کہ انہیں مکمل قوائد وضوابط اور شرائط پر پورا اترنے کے بعد تعینات کیا گیا تھا۔ تعلیمی قابلیت اشتہار میں بیچلرز اور تجربہ مانگا گیا وہ ان شرائط پر پورا اترتے تھے تو انہیں تعینات کر دیا گیا۔ 

ان سے پوچھا گیا کہ آپ پر نائجیریا میں منی لانڈرنگ کا کیس بھی ہوا تھا اس کا کیا ہوا؟

اس پر عارف عثمانی نے کہا کہ ان کے خلاف ’ذاتی مخالفت پر منی لانڈرنگ کا جھوٹا مقدمہ دائر کیا گیا تھا جو عدالت نے خارج کیا انہوں نے وہ مکمل ریکارڈ حکومت پاکستان کو جمع کرا دیا تھا۔‘

’اس کے علاوہ این بی پی میں کرپشن کے خاتمے اور کارکردگی بہتر کرنے پر توجہ دی لیکن یہاں بعض ملازمین ڈیوٹی کے لیے سختی کرنے پر ان کے مخالف ہو گئے لیکن انہیں اس کی پرواہ نہیں جس مقصد کے لیے انہیں تعینات کیا گیا میں نظام بہتر کرنے سے پیچھے نہیں ہٹوں گا۔‘

واضح رہے کہ سابق دور حکومت میں وزیر عظم عمران خان نے سابق صدر این بی پی سعید احمد کی تقرری پر ٹویٹ کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ نواز شریف کے کہنے پر سابق وزیر خزانہ کے منی لانڈرنگ میں فرنٹ مین کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان