جب بھٹو کے دور میں آٹا مل مالکان کو مرغا بنایا گیا

فلور ملز مالکان بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ سے ناقص اور غیر معیاری آٹا فراہم کرنے لگے تو وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے یہ مسئلہ ڈاکٹرغلام حسین کے حوالے کر دیا، جنہوں نے اس کا دلچسپ حل نکالا۔

ڈاکٹرغلام حسین کی انوکھی سزا پر مل مالکان میں ایسا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے گندم میں ملاوٹ چھوڑ دی اور اپنا قبلہ درست کر لیا (اے ایف پی)

ڈاکٹر غلام حسین 1970 کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر جہلم سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے۔ بعد ازاں وہ وفاقی وزیر ریلوے اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل بھی مقرر ہوئے۔

گذشتہ دنوں ان کی کتاب ’میری داستان جدوجہد‘ کی تقریب رونمائی میں پیپلز پارٹی، راولپنڈی کے سابق صدر سینیٹر سردار سلیم نے اس دور کا ایک واقعہ سنایا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ پیپلز پارٹی کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب سرکاری ڈپو پر غریب عوام کو راشن کارڈ کے ذریعے راشن فراہم کیا جاتا تھا تو فراہم کیے جانے والے آٹے کا معیار خراب ہوتا چلا گیا۔

فلور ملز مالکان، بیوروکریسی کے گٹھ جوڑ سے ناقص اور غیر معیاری آٹا فراہم کرنے لگے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی توجہ پارٹی کارکنوں نے اس اہم مسئلے کی جانب مبذول کروائی تو انہوں نے اس کا ٹاسک ڈاکٹرغلام حسین کو دیا کہ معیاری گندم سے بنے آٹے کی فراہمی کو عوام کے لیے یقینی بنایا جائے۔

ڈاکٹر غلام حسین نے پنجاب کی فلور ملوں پر چھاپے مارے اور تیار شدہ آٹے کے نمونے چیک کروائے، جس سے ثابت ہوا کہ واقعی غیر معیاری آٹا تیار کر کے راشن ڈپوؤں کو فراہم کیا جا رہا تھا اور اس عمل میں محکمہ خوراک کا عملہ بھی ملوث پایا گیا۔

انہوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ جن فلور ملز کا آٹا غیر معیاری نکلتا اس کے مالک کو مزدوروں کے سامنے کان پکڑوا کر مرغا بنایا جاتا، اس تذلیل آمیز سزا پر مل مالکان پر ایسا خوف طاری ہوا کہ انہوں نے گندم میں ملاوٹ چھوڑ دی اور اپنا قبلہ درست کر لیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر غلام حسین کا کہنا تھا کہ اگر میں ملز مالکان کے خلاف ایف آئی آر درج کرواتا تو پولیس ان بااثر ملز مالکان کو گرفتار کرنے سے ہچکچاتی اور یوں وہ دوسرے روز ضمانت کروا کر دوبارہ اسی دھندے میں مصروف ہو جاتے۔

اس جیسے واقعات سن کر میں سوچنے لگا کہ کبھی ہماری سیاست کا محور عوامی خدمت ہوا کرتا تھا، سیاست کا مقصد عوام کو ریلیف دینا ہوتا تھا لیکن یہاں ایک سوال بہت اہم ہے کہ کیا ڈاکٹر غلام حسین ہر مالک سے لاکھوں روپیہ رشوت وصول کرکے ارب پتی نہیں بن سکتے تھے؟

وقت کا دھارا پلٹا۔ ذوالفقار علی بھٹو پھانسی چڑھ گئے۔ ڈاکٹر غلام حسین قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرتے کرتے زبردستی جلاوطن کر دیے گئے۔ جب وہ جہلم سے 90 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے امیدوار تھے تو ایک تو ان کے وسائل محدود تھے اور دوسری جانب آئی جے آئی بنانے والوں نے انہیں سکیورٹی رسک قرار دیتے ہوئے مخالف امیدوار کے حق میں مہران بینک سکینڈلز کا کروڑوں روپیہ آئی جے آئی کے امیدوار کے حق میں استعمال کیا۔ یوں ڈاکٹر غلام حسین چند ہزار ووٹوں سے رکن اسمبلی منتخب ہونے سے محروم ہو گئے۔

بعد ازاں ایئر مارشل (ر) اصغر خان نے 1990 کے انتخابات میں دھاندلی اور سیاست دانوں میں کروڑوں روپے تقسیم کرنے کی تحقیقات کےلیے سپریم کورٹ میں کیس دائر کیا۔ سپریم کورٹ نے ہماری قومی تاریخ کے بھیانک کرداروں کے چہرے سے نقاب الٹ ڈالا لیکن حکومتی اداروں میں اتنی سکت نہیں تھی کہ بااثر اشرافیہ کو سزا دلوا سکیں۔

آج اگر ہم میں اقتدار کی خاطر نظریات قربان کرنے والے ہر حکومت میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کر نے والے سیاست کے ذریعے اربوں روپے کی کرپشن کر کے بیرون ملک جائیدادیں بنانے والے سیاست دانوں کی بجائے ڈاکٹر غلام حسین، ڈاکٹر مبشر حسین، حنیف رامے، ملک معراج خالد، ملک محمد جعفر، خورشید حسن، میر شیخ محمد رشید، معراج محمد خان اور اصغر خان جیسے سیاست دان ہوں تو پھر ایئر مارشل ریٹائرڈ اصغر خان کیس کے سپریم کورٹ فیصلہ پر عمل کرنا ہو گا تاکہ سیاست میں نظریات کو واپس لایا جائے۔

مزدور، کسان، دانش ور اور درمیانے طبقے کی جمہوریت میں نمائندگی بڑھانی ہو گی کیونکہ طبقاتی تاریخی اور نظریاتی شعور سے محروم سیاسی قیادت محض تبدیلی کا خواب تو دکھا سکتی ہے لیکن معاشرے میں حقیقی تبدیلی کبھی بھی نہیں لا سکتی۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کے ذاتی خیالات پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ