تین دنوں میں دو شاعروں کی خودکشیاں: لکشمی اور سرسوتی کی جنگ

اگر علم و فن کو اپنا مقام نہ ملا تو خودکشی کا رجحان مزید بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ معاشرے کو اتنا تنگ نظر نہ بننے دیجیے کہ لکشمی کی ٹانگیں اسے اپنے گھروں میں بند کر کے توڑ ڈالے۔

ہندوستانی اساطیر کے مطابق  علم و فن کی دیوی سرسوتی (پبلک ڈومین)

ہندو ازم میں سرسوتی علم کی دیوی مانی جاتی ہے اور لکشمی دولت کی دیوی۔ اور یہ عقیدہ آج کل راسخ ہو چکا ہے کہ سرسوتی اور لکشمی کسی گھر میں اکٹھے نہیں رہ سکتیں۔

لکشمی دیوی کے بارے میں تو اکثر لوگ جانتے ہیں کہ یہ دولت کی دیوی ہے۔ البتہ سرسوتی دیوی کے بارے میں کم لوگ جانتے ہیں۔ سرسوتی دراصل شاعروں اور ادیبوں کی سر پرست دیوی ہے۔ کتب خانوں میں اس کی عبادت کے دوران پھول اور پھل پیش کیے جاتے ہیں اور لوبان سلگایا جاتا ہے۔ سرسوتی ہندو اساطیر میں سب سے پرانی ویدوں میں بھی مذکور ملتی ہے۔ سرسوتی کی عبادت کے وقت ہندو جو وید پڑھتے ہیں اس کا ٹوٹا پھوٹا ترجمہ کچھ یوں ہے۔

اے یاسمین سی پاک
اے چاند کی ٹھنڈک والی
اے برف جیسی روشن
یا روشن موتیوں جیسی
اے دودھیا چادر والی
ترے ہاتھوں میں ہے وینا
اے پاک سفید کنول جیسی
دیو برہما کی چاہت
اے وشنو شنکر اور بہت سے دیوتاوں کی لاڈلی
ہمیں بچا،
ہمیں جگا،
اور ہمیں جہالت سے باہر لے آ

یعنی سرسوتی سے کئی صدیوں تک لوگ علم کی بھیک مانگتے رہے۔ البتہ اب معاملہ کچھ الٹ گیا ہے۔ ہندو پروہت پریشان ہیں کہ لوگ اب صرف لکشمی کی پوجا کرتے ہیں۔ سالانہ ایک بار کی لازمی پوجا پاٹ کے سوا سرسوتی کو خاص توجہ نہیں مل پا رہی۔ محاورے بھی سب لکشمی کے زیر اثر بن رہے ہیں۔ جیسے اپنی پتنی کو کہنا کہ یہ تو میرے گھر کی لکشمی دیوی ہے۔ یا کسی کو ثروت مند پا کر کہنا کہ لکشمی نے ان کے گھر اتر کر اپنی ٹانگیں توڑ ڈالی ہیں۔

لکشمی جو دولت اور طاقت کی دیوی ہے وہ دراصل سرسوتی کی چھوٹی بہن ہی ہے۔ لیکن آج کل اساطیر کی ڈرامائی تشکیل میں بھی لکشمی کو ہی شیاطین کے دانت کھٹے کرتے دکھایا جاتا ہے۔ جو عورت جہیز ساتھ لائے اسے لکشمی سے تشبیہ دینا آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے میں پڑھی لکھی ادیبہ، شاعرہ یا رقاصہ کا سکوپ معاشرے میں بہت کم ہو چکا ہے۔  ہندو پروہت یہ بات پھیلانا چاہ رہے ہیں کہ لکشمی سرسوتی کی چھوٹی بہن ہے سو جہاں سرسوتی ہو گی وہاں لکشمی بھی آئے گی ہی آئے گی۔ البتہ عام عوام اس بارے میں یہی تاثر لیے ہوئے ہیں کہ لکشمی چلتی پھرتی دیوی ہے۔ وہ آئے گی اور چلی جائے گی اس لیے اس کے آنے کے بعد اس کے نہ جانے کی سبیل ڈھونڈی جائے سو اس کی جی بھر کے پوجا کی جاتی ہے۔ اکثر لکشمی کی تصاویر اور گھروں میں رکھے بتوں میں لکشمی کے پاؤں نہیں ہوتے کہ یہ کہیں چلی نہ جائے۔

دوسری طرف سرسوتی علم و فن، سکون اور لطف کی دیوی ہے۔ رقص کرنے والوں کے لیے، پرسکون موسیقی والوں کے لیے اور دانشوروں کے لیے سرسوتی کی بہت اہمیت ہو سکتی تھی لیکن فاسٹ فوڈ اور فاسٹ میوزک کے دور میں ممبئی جیسے شہر کے باہر بھی جو نئے مندر بن رہے ہیں وہ لکشمی دیوی کے مجسموں سے پر ہیں۔

اس ساری تمہید کا مقصد ہندو ازم سے آگاہی دلانا ہرگز نہیں تھا۔ مقصد صرف یہ اجاگر کرنا تھا کہ شاعروں، ادیبوں، فنکاروں، موسیقاروں، فنون کے ماہرین، انجینیئروں، ڈاکٹروں یہاں تک کہ پی ایچ ڈی سکالروں کی دگرگوں حالت سے یہی لگتا ہے کہ پاکستان میں بھی اہمیت لکشمی کو ہی حاصل ہے۔ سرسوتی کا تعلق نوکری اور لکشمی کا تعلق کاروبار سے جڑا ہوا ہے اور یوں دو متوازی طبقات چل رہے ہیں۔ لکشمی کا پلڑا بھاری ہے۔

پے در پے تین دنوں میں دو نوجوانوں کی خودکشیوں کی خبر سننے کو ملی ہے جو بظاہر نوکری نہ ملنے پر بے چین تھے۔ دونوں بظاہر سرسوتی سے فیض لے چکے تھے لیکن ان سے لکشمی ناراض تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر علم و فن کو اپنا مقام نہ ملا تو خودکشی کا رجحان مزید بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ معاشرے کو اتنا تنگ نظر نہ بننے دیجیے کہ لکشمی کی ٹانگیں اسے اپنے گھروں میں بند کر کے توڑ ڈالے۔ لکشمی کو اپنی بڑی بہن سے کسی طور ملاقات کا بھی موقع دیجیے۔ صاحب ثروت لوگوں کو چاہیے کہ ادبی محافل، مشاعروں اور موسیقی کی محافل کی سرپرستی کرنا شروع کریں۔ پڑھے لکھے نوجوانوں کو اپنی فیکٹریوں اور کاروباروں میں حصے دار بنائیں۔ ان کے لیے مواقع پیدا کریں۔

دوسری طرف پڑھے لکھے طبقے سے بھی مودبانہ گزارش ہے کہ پاتھ پیر ہلا کر لکشمی کی تلاش میں خجل ہونا بری بات نہیں۔ سرسوتی کی ڈگری آپ کو پلیٹ میں رکھ کر لکشمی نہیں دینے والی۔ فن کو عمل سے جوڑنا مشروط ہے۔ لکشمی اور سرسوتی دیویوں کے تعلقات بہتر ہوں تو کسی شیطان کی کیا مجال کہ انسان کو خودکشی کی طرف لے جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ادب