فرانس: دو خواتین پر مسلم خواتین پر ’نسل پرستانہ‘ وار کرنے کا الزام

حکام کے مطابق پیرس میں آئفل ٹاور کے قریب دو فرانسیسی خواتین نے دو مسلمان خواتین پر چاقوؤں سے وار کیا اور ان کا حجاب خراب کرنے کی کوشش کی ۔

قانونی ذرائع نے جمعرات کو خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں آئفل ٹاور کے قریب دو مسلمان خواتین پر چاقوؤں کا وار ہوا اور ان کا سکارف خراب کرنے کی کوشش کی گئی۔

یاد رہے کہ فرانس میں نسل پرستی کا موضوع گرم ہے کیونکہ حال ہی میں ایک حملہ آور نے ایک فرانسیسی ٹیچر کا سر قلم کر دیا تھا۔ ان ٹیچر پر الزام تھا کہ انہوں نے توہین رسالت والے کارٹون اپنی کلاس میں دکھائے تھے۔

اے ایف پی کے مطابق متاثرہ خواتین حنانے اور کنزا نے بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ پارک آئی ہوئی تھیں، جب یہ واقعہ پیش آیا۔

 انہوں نے بتایا کہ ملزم خواتین نے شراب پی رکھی تھی اور مسئلہ تب کھڑا ہوا جب وہ خواتین اپنے کتوں کے ساتھ ان کے قریب سے گزرنے لگیں تو حنانے اور کنزا نے ان سے کہا کہ وہ اپنے کتوں کو اپنے قریب رکھیں کیونکہ انہیں کتوں سے ڈر لگتا ہے۔

حنانے کے مطابق اس بات پر وہ خواتین بھڑک اٹھیں اور کہا کہ ان کے کتوں سے کبھی کسی کو تکلیف نہیں ہوئی اور ساتھ ہی انہوں نے انہیں ’گندے عرب‘ کہہ کر پکارا اور ان سے مزید کہا کہ یہ ملک ان کا گھر نہیں ہے۔ پھر ان میں سے ایک نے حنانے کا حجاب خراب کرنا شروع کردیا جسے دیکھ کر کنزا، جن کی عمر 19 سال ہے، وہ حنانے کو بچانے کے لیے کھڑی ہوگئیں۔

کنزا پر تین جگہ چاقو سے وار کیا گیا، ایک سر پر، ایک پیٹ میں اور ایک بازو پر۔ دوسری 40 سالہ خاتون، جو ان کے ساتھ ہی تھیں، ان کو چھ جگہ چاقو مارا گیا جس سے ان کے پھیپھڑے میں سوراخ ہوگیا اور وہ فی الوقت ہسپتال میں ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ فرانسیسی میڈیا اس حملے کے بارے میں خاموش ہے۔ ان کے مطابق یہ نفرت پر مبنی جرم ہے جس میں مذہب کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

مرکزی ملزم کو حفاظتی تحویل میں رکھا گیا ہے جبکہ ان کی دوست کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔

رپورٹ میں دونوں ملزمان پر ہتھیار کے استعمال، نشے کی حالت، نسلی امتیاز پر مبنی توہین آمیز جملے استعمال کرنے اور ساتھ مل کر حملہ کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔

لیکن متاثرہ افراد کے وکیل ایری علیمی نے ان خواتین پر زور دیا ہے کہ وہ ملزمان پر نسل یا مذہب سے وابستہ قتل کی کوشش کا الزام عائد کریں تاکہ انہیں سخت الزامات کا سامنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ ملزمان خواتین میں سے ایک نے خاص طور پر حجاب کو نشانہ بنایا۔

دونوں ملزمان نے نسلی توہین کرنے سے انکار کیا ہے۔ ملزمان کے وکیل برنارڈ سولیٹیٹ نے ’اس کہانی کو تناسب سے اڑانے‘ کے خلاف انتباہ کیا اور کہا کہ ’حقائق پر قائم رہنا ضروری ہے۔ ایک جھگڑا جس میں توہین آمیز جملے کسے گئے۔‘

دوسری جانب وکیل علیمی نے فرانسیسی حکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پیرس کے مضافات میں ایک مسجد بند کردی گئی ہے اور 18 سالہ چیچن شدت پسند کی جانب سے استاد سموئیل پیٹی کا سر قلم کرنے کے بعد متعدد مسلم گروہوں کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس سے جہادیوں کو ’اپنے مقصد تک پہنچنے میں مدد ملتی ہے۔ مسلمانوں کی بدنامی سے زیادہ سے زیادہ افراد شدت پسند بن جاتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا