’دی انڈپینڈنٹ‘ کے معروف نامہ نگار رابرٹ فسک انتقال کر گئے

رابرٹ فسک حکومتوں کے سرکاری بیانیے پر سوال اٹھانے اور جس چیز سے وہ پردہ اٹھاتے تھے اسے شاندار انداز میں تحریر کرنے کے سبب سے مشہور تھے۔

رابرٹفسک نے جو کچھ لکھا اس کا زیادہ تر حصہ متنازع تھا۔ ایسا لگتا ہے انہیں اس بات سے لطف آتا تھا۔ (ریکس فیچرز/ دی انڈپینڈنٹ)

برطانوی میڈیا پلیٹ فارم ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے مشرق وسطیٰ میں معروف نامہ نگار اور اپنے دور کے سب سے مشہور صحافی رابرٹ فسک علالت کے بعد چل بسے۔ ان کی عمر 74 برس تھی۔

رابرٹ فسک حکومتوں کے سرکاری بیانیے پر سوال اٹھانے اور جس چیز سے وہ پردہ اٹھاتے تھے اسے شاندار انداز میں تحریر کرنے کے سبب سے مشہور تھے۔ وہ 1989 میں ’دا ٹائمز‘ کو چھوڑ کر ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے ساتھ وابستہ ہو گئے اور تیزی سے اس کے سب سے زیادہ معروف اور ایسے مصنف بن گئے جن کی ان کے نام کے ساتھ سٹوریز کو سب سے زیادہ سرچ کیا جاتا تھا۔ وہ ڈبلن میں اپنی موت تک ’دی انڈپینڈنٹ‘ کے لیے لکھتے رہے۔

گذشتہ ہفتے تک ’دی انڈپینڈنٹ کے ایڈیٹر رہنے والے اور اب مینیجنگ ایڈیٹر کرسچیئن بروٹن نے کہا: ’نڈر، سمجھوتہ نہ کرنے والے، ثابت قدم اور ہر قیمت پر سچائی اور حقیقت کو سامنے لانے میں انتہائی پرعزم رابرٹ فسک اپنی نسل کے عظیم ترین صحافی تھے۔ انہوں نے ’دی انڈپینڈنٹ‘ میں جو آگ روشن کی وہ جلتی رہے گی۔‘ 

رابرٹ فسک نے جو کچھ لکھا اس کا زیادہ تر حصہ متنازع تھا۔ ایسا لگتا ہے انہیں اس بات سے لطف آتا تھا۔ 2003 میں جب امریکہ اور برطانیہ نے عراق پر حملے کی تیاری کی تو وہ نیو یارک میں اقوام متحدہ کے دفتر میں گئے جہاں انہوں نے دیکھا کہ اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ کولن پاول نے جنگ کے لیے غیر متاثر کن کیس تیار کر رکھا تھا۔

انہوں نے لکھا: ’جب جنرل کولن پاول سلامتی کونسل پہنچے اور نمائندوں کے گال چومے اور اپنے بڑے بازو ان کے گرد لپیٹے تو اس وقت کھیل کا آغاز بہت خوفناک تھا۔ جیک سٹرا ان کے بڑے سے امریکی معانقے کے لیے خاصے موزوں تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رابرٹ فسک کینٹ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے لنکاسٹر یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور فلیٹ سٹریٹ میں واقع اخبار ’سنڈے ایکسپریس‘ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ انہوں نے ’دا ٹائمز‘ کے لیے کام کرنا جاری رکھا جہاں وہ شمالی آئرلینڈ، پرتگال اور مشرق وسطیٰ میں مقیم رہے۔

انہوں نے لبنان کے شہر بیروت میں کئی دہائیاں گزاریں۔ وہ ساحلی علاقے میں  شہر کی معروف سڑک پر واقع اپارٹمنٹ میں مقیم رہے۔  انہوں نے  ایسے وقت میں جب لبنان میں کام کیا جب قوم خانہ جنگی کا شکار ہو کر منقسم تھی  اور بہت سے صحافیوں کو اغوا کر لیا گیا تھا۔

رابرٹ فسک نے کئی ایوارڈ حاصل کیے جن میں ایمنسٹی انٹرنیشنل اور برٹش پریس ایوارڈز شامل ہیں۔ انہوں نے متعدد کتابیں جن میں ’پٹی دا نیشن: لبنان ایٹ وار‘ اور ’دا گریٹ وار فار سویلائزیشن‘ اور ’دا کنکوئسٹ آف دا مڈل ایسٹ‘ سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں۔ انہوں نے ٹرینیٹی کالج سے ڈاکٹریٹ مکمل کی اور کاؤنٹی ڈبلن کے علاقے ڈالکی میں گھر کے مالک تھے۔

انہوں نے القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کا دو مرتبہ انٹرویو کیا۔ نائن الیون کے حملوں اور ان کے نتیجے میں عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے حملے کے بعد انہوں نے پاکستان افغانستان سرحد کا سفر کیا جہاں ان پر افغان مہاجرین کے ایک گروپ نے حملہ کر دیا جو مغربی طاقتوں کے ہاتھوں اپنے ہم وطنوں کی ہلاکت پر غصے میں تھے۔

انہوں نے اس واقعے کو صفحہ اول پر شائع ہونے والی مشہور رپورٹ بنا دیا جو ان کے زخمی چہرے کی تصویر کے ساتھ مکمل تھی۔

انہوں نے لکھا: ’مجھے احساس ہوا کہ وہ سب افغان مرد اور لڑکے تھے جنہوں نے مجھ پر حملہ کیا۔ وہ ایسا کبھی نہ کرتے لیکن ان کا وحشی پن مکمل طور پر دوسروں، ہماری وجہ سے تھا۔ ہم جنہوں نے روسیوں کے خلاف ان کی جدوجہد کو مسلح کر دیا تھا اور ان کے درد کو نظرانداز کرکے ان کی خانہ جنگی پر قہقہہ لگایا اور اس کے بعد صرف چند میل کے فاصلے پر ’وار فار سویلائزیشن‘ کے لیے انہیں پھر رقم دی اور اس کے بعد ان کے گھروں پر  بمباری کی اور ان کے خاندانوں کو منتشر کر دیا اور انہیں ’اضافی نقصان‘ قرار دیا۔‘

فسک جنہوں نے آئرلینڈ کی شہریت حاصل کر لی تھی ان کی آئرش صدر مائیکل ڈی ہگنز نے بھی تعریف کی ہے۔ انہوں نے ایک بیان میں لکھا: ’مجھے رابرٹ فسک کی موت کے بارے میں جان کر بہت دکھ ہوا۔ ان کی موت سے صحافت اور مشرق وسطیٰ پر معلوماتی تبصرے کی دنیا  بہترین تبصرہ کرنے والے افراد میں سے ایک سے محروم ہو گئی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’صرف آئرلینڈ  کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں نسلیں دنیا کے جنگ زدہ علاقوں میں ہونے والے واقعات اور مزید اہم یہ کہ وہ اثرورسوخ جو شائد اس جنگ کا سبب تھے، ان پر ان کے تنقیدی اور معلوماتی نکتہ نظر کے لیے انحصار کرتی تھیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا