کرونا وبا میں ڈاکٹر اسامہ کی قربانی رائیگاں نہ جانے دیں: والد

مارچ میں جب کرونا وبا گلگت بلستان پہنچی تو نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض جگلوٹ میں سکریننگ اور سکوار قرنطینہ مرکز پر تعینات کیے گئے۔ محدود حفاظتی اقدامات کے ساتھ ڈیوٹی پر معمور ڈاکٹر اسامہ چند روز کے بعد ہی وبا کا شکار ہوگئے اور ایک صبح اپنے کمرے میں بےہوش ملے۔

گلگت بلتستان میں اس سال کے اوائل میں کرونا (کورونا) وائرس کی وبا سے قبل اس کا خوف و ہراس پہنچ گیا تھا۔ اس پہاڑی علاقے کے ہزاروں شہری بیرون ملک بالخصوص وبا سے متاثرہ ممالک سے واپس آ رہے تھے۔ یہ صورت حال گلگت بلتستان کی حکومت اور محکمہ صحت کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں تھی۔

خوف و ہراس میں ڈوبے ہوئے لوگ بستیوں کے قریب قرنطینہ مرکز یا آئیسولیشن سینٹر بنانے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ طبی عملہ بھی اس قدر خوفزدہ تھا کہ چہرے مایوسی میں ڈوبے ہوئے تھے۔ پوری دنیا میں خوف پھیلانے اور ہر شعبہ ہائے زندگی کو بری طرح متاثر کرنے والے کرونا وائرس کا علاج دریافت کرنا تو دور کی بات مریض کی تشخیص اور احتیاط کے لیے بھی بہت کم سامان دستیاب تھا۔

ایسے میں مارچ کا آغاز اس پہاڑی علاقے کے لیے کرونا وائرس کی وجہ سے نئی مشکلات سے ہوا۔ بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کے لیے گلگت کے نواح میں جگلوٹ کے مقام پر سکرینگ سینٹر قائم کیا گیا جہاں سے مشتبہ مریضوں کو سکوار گلگت کے مقام پر آئیسولیشن سینٹر منتقل کیا جاتا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے اور سپیشلائزیشن کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے والے نوجوان ڈاکٹر اسامہ ریاض کو جگلوٹ کے مقام پر سکریننگ اور سکوار قرنطینہ مرکز پر تعینات کردیا گیا۔ محدود حفاظتی اقدامات کے ساتھ ڈیوٹی پر معمور ڈاکٹر اسامہ چند روز کے بعد ہی وبا کا شکار ہوگئے اور ایک صبح اپنے کمرے میں بےہوش پائے گئے۔

گھر والوں کو علم ہوتے ہی انہوں نے فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جہاں پر ڈاکٹروں نے اپنے ہی پیشے سے منسلک پہلا کرونا مریض دیکھا۔ کئی دنوں تک وینٹی لیٹر پر زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے والے ڈاکٹر اسامہ ریاض بعد میں انتقال کر گئے۔ یوں ڈاکٹر اسامہ ریاض پاکستان میں کرونا وائرس سے طبی عملے کے پہلے شکار قرار پائے۔ اس کے بعد ملک بھر بالخصوص گلگت بلتستان کے ڈاکٹروں میں خدمت کا ایک نیا جذبہ پیدا ہوگیا۔

ڈاکٹر اسامہ ریاض کے والد محمد ریاض کہتے ہیں: ’بیٹے اپنے باپ کی وجہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ میری شخصیت کی پہچان میرے بیٹے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کی شہادت کو قبول کرے اور اس وبا سے ہم سب کو بچائے۔‘

پیپلز پرائمری ہیلتھ انیشیٹیوز کے ڈسٹرکٹ سپورٹ منیجر برائے گلگت محمد حنیف بھی ڈاکٹر اسامہ کے ساتھ ڈیوٹی کر رہے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرونا وبا کے ابتدائی دنوں میں سرویلنس (نگرانی) کا کام ڈاکٹر اسامہ ریاض کے سپرد تھا۔ اس کے علاوہ بیرون ملک سے آنے والوں کی سکرینگ کی ذمہ داری بھی ڈاکٹر اسامہ ریاض کو دے دی گئی تھی جس کے باعث وہ آئیسولیشن سینٹروں میں منتقل کیے گئے۔ وہ مریضوں کو ابتدائی طبی امداد دینے اور معائنہ کرنے کے لیے پہنچ جاتے تھے۔

 گلگت کے صحافی منظر شگری کرونا وائرس کا شکار ہوگئے اور کئی دنوں تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب وہ آکسیجن پہ تھے تو یہی دیکھتے تھے کہ ان کے ساتھ ایک نوجوان ڈاکٹر خدمت کے لیے کھڑا رہتا۔ انہوں نے کہا: ’آج اگر میں زندہ ہوں تو اس میں اللہ کے بعد ڈاکٹرز، نرسز اور وارڈ میں صفائی پر مامور عملے کا ہی کردار ہے۔‘

منظر شگری کا مزید کہنا ہے: ’اسامہ ریاض پاکستان کے پہلے ڈاکٹر تھے جو کرونا وائرس کی وجہ سے شہید ہوگئے۔ ان کے بعد گلگت بلتستان کے ڈاکٹروں کا حوصلہ پست نہیں ہوا بلکہ مزید بلند ہوگیا۔‘

ڈاکٹروں نے رضا کارانہ طور پر اپنی ڈیوٹی ایسے مقامات پر لگوائی جہاں وائرس پھیل چکا تھا۔ ان علاقوں میں جا کر کرونا کے خلاف ایک جدوجہد کی جس میں وہ کامیاب ہوگئے۔

محمد حنیف کے مطابق اس وقت کرونا ملک بھر میں عمومی طور پر پھیلا ہوا ہے۔ ’ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی عادتوں اور روایات یا سماجی اقدار کو حکومتی اداروں اور محکمہ صحت کے ہدایات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں تاکہ ڈاکٹر اسامہ ریاض اور تمام ڈاکٹروں سمیت پیرامیڈیکل سٹاف نے جو کاوشیں کی ہیں ان کی قربانی رائیگاں نہ جائیں۔ ہم اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لا کر اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کرسکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر اسامہ ریاض کے والد محمد ریاض موجودہ صورت حال پر بھی پریشان ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ’آج بھی یہ وبا ختم نہیں ہوئی ہے، میں چاہتا ہوں کہ میرے بیٹے اسامہ ریاض کی طرح ہزاروں ڈاکٹرز اور نرسز جنہوں نے لوگوں کو بچانے کے لیے محنت کی ہے اس کو ضائع نہ کریں۔ لہٰذا کرونا سے بچنے کے لیے محدود رہیں محفوظ رہیں۔‘

۔۔۔۔۔

کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی کوشش کرنے والے کرداروں پر  مبنی یہ کہانی ’پرعزم پاکستان‘ مہم کا حصہ ہے۔ اس کی اشاعت اور پروڈکشن انڈپینڈنٹ اردو اور پاکستان پیس کولیکٹو کی مشترکہ کاوش ہے۔ ایسے باہمت اور پرعزم کرداروں اور ان کی محنت کو سامنے لانے میں ان طلبہ و طالبات نے کلیدی کردار ادا کیا جو پاکستان پیس کولیکٹو کے ڈاکومینٹری فلم کے تربیتی پروگرام کا حصہ تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل