’جب جاگی تو سمجھ گئی، انہوں نے میری آنکھیں چھین لیں‘

آخری چیز جو 33 سالہ خطیرہ نے دیکھی وہ موٹرسائیکل پر سوار تین افراد تھے جنہوں نے ان پر افغانستان کے صوبے غزنی میں حملہ کر دیا تھا۔ حملہ آوروں نے ان پر گولیاں چلائیں اور ان کی آنکھوں میں چھری سے وار کیے۔

خطیرہ نے چند ماہ قبل ہی غزنی پولیس سٹیشن کے کرائم برانچ میں بطور آفیسر اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا (روئٹرز)

آخری چیز جو 33 سالہ خطیرہ نے دیکھی وہ موٹرسائیکل پر سوار تین افراد تھے جنہوں نے ان پر افغانستان کے صوبے غزنی میں حملہ کر دیا تھا۔ حملہ آوروں نے ان پر گولیاں چلائیں اور ان کی آنکھوں میں چھری سے وار کیے۔

جب وہ جاگیں تو ہسپتال میں تھیں اور ہر طرف اندھیرا تھا۔

خطیرہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ڈاکٹروں سے پوچھا کہ میں کچھ دیکھ کیوں نہیں پا رہی؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ میری آنکھوں پر زخموں کی وجہ سے پٹی لگی ہے۔ لیکن اسی لمحے مجھے معلوم پڑ گیا تھا کہ انہوں نے میری آنکھیں چھین لی ہیں۔‘

وہ اور مقامی انتظامیہ اس حملے کا الزام طالبان جنگجوؤں پر عائد کرتے ہیں جنہوں نے  اس حملے سے کسی بھی قسم کے تعلق کو مسترد کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں نے خطیرہ کے والد کے کہنے پر ایسا کیا ہے کیوں کہ ان کے والد ان کی ملازمت کرنے کے مخالف تھے۔

خطیرہ جنہوں نے چند ماہ قبل ہی غزنی پولیس سٹیشن کے کرائم برانچ میں بطور آفیسر اپنے کریئر کا آغاز کیا تھا اور اس حملے سے صرف ان کی نظر ہی کا نقصان نہیں ہوا بلکہ ان کا خواب بھی ٹوٹ گیا جسے پورا کرنے کے لیے انہوں نے کافی محنت کی تھی۔

انہوں نے روئٹرز کو بتایا کہ ’کاش میں نے پولیس میں کم از کم ایک سال ہی گزارا ہوتا۔ اگر یہ میرے ساتھ اس کے بعد ہوتا کم تکلیف ہوتی۔ یہ بہت جلد ہو گیا۔۔۔۔ مجھے ملازمت کرنے اور اپنا خواب جینے کے لیے تین ماہ ہی ملے۔‘

خطیرہ پر حملے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں خواتین کے نوکری کرنے پر کتنا شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے۔

افغانستان میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل کی اہلکار سمیرہ حامدی کہتی ہیں کہ ’افغان خواتین کے لیے سرکاری کردار ہمیشہ ہی خطرناک رہے ہیں۔ تشدد میں حالیہ اضافے نے معاملات مزید خراب کر دیے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ خواتین کے حقوق کے لیے گذشتہ ایک دہائی کے دوران جو اچھے اقدامات کیے گئے ہیں وہ طالبان کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کا شکار نہیں بننے چاہیے۔‘

بچپن کا خواب ٹوٹ گیا

خطیرہ کا گھر سے باہر نکل کر کام کرنے کا بچپن کا خواب تھا اور کئی سالوں تک والد کو منانے کی کوشش کے بعد وہ تو نہ مانے مگر خطیرہ کو ان کے شوہر کی حمایت مل گئی۔

مگر وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد نے مخالفت کرنے میں ہار نہیں مانی۔

’کئی مرتبہ، میں جب ڈیوٹی پر جاتی تو اپنے والد کو پیچھا کرتے دیکھا۔ انہوں نے قریبی علاقے میں طالبان سے رابطے کرنے شروع کر دیے تاکہ مجھے ملازمت سے روک لیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ان کے والد نے طالبان کو ان کا آئی ڈی کارڈ دیا تاکہ یہ ثابت کر سکیں کہ وہ پولیس کے محکمے میں کام کرتی ہیں۔ ان کے مطابق جس دن ان پر حملہ ہوا اس روز ان کے والد ان کا مقام پوچھنے کے لیے دن بھر کال کرتے رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غزنی پولیس کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ ان کا ماننا ہے کہ اس حملے کے پیچھے طالبان ہیں اور خطیرہ کے والد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔

جبکہ ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے سے آگاہ ہیں، مگر ان کے مطابق یہ خاندانی مسئلہ ہے اور ان کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

خطیرہ اپنے پانچ بچوں سمیت چھپ کر رہ رہی ہیں۔ وہ صحتیاب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے کریئر کے لیے غمگین بھی ہیں۔

انہیں سونے میں مشکل ہوتی ہے اور موٹر سائیکل کی آواز سن کے چونک جاتی ہیں۔ انہیں اپنے خاندان والوں کے ساتھ رابطہ ختم کرنا پڑ گیا ہے جن میں ان کی والدہ بھی شامل ہیں جو خطیرہ کو اپنے والد کی گرفتاری کا قصور وار ٹھہراتی ہیں۔

’اگر یہ ممکن ہوا، اور میرے بینائی لوٹ آئی تو میں اپنی ملازمت دوبارہ شروع کروں گی اور پولیس میں خدمات سرانجام دوں گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین