افغان شہریوں کا قتل: آسٹریلوی فوجیوں پر جنگی جرائم کا مقدمہ

آسٹریلوی فوج کے چیف آف ڈیفنس فورس کی جانب سے 465 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں افغانستان میں ایک کارروائی کے دوران آسٹریلوی فوجیوں کے ہاتھوں چھ سالہ بچے کو قتل کرنے سے لے کر ہیلی کاپٹر میں جگہ بنانے کے لیے ایک قیدی کو قتل کرنے جیسے واقعات کا انکشاف کیا گیا۔

آسڑیلوی وزارت دفاع کی جانب سے  اکتوبر 2009 میں جاری کی گئی  ایک تصویر میں آسٹریلوی فوجی افغانستان میں ایک مشن پر موجود ہیں  (اے ایف پی)

آسٹریلیا کے اعلیٰ جنرل کا کہنا ہے کہ 39 افغان شہریوں اور قیدیوں کے غیر قانونی قتل میں آسٹریلوی افواج کے ملوث ہونے کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں اور اس معاملے کو سپیشل وار کرائمز پراسیکیوٹر کو بھیجے جانے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

آسٹریلوی فوج کے چیف آف ڈیفنس فورس آنگس کیمپبیل نے جمعرات کو ایک 465 صفحات پر مشتمل دل دہلا دینے والی رپورٹ پیش کی، جس میں ایسے قتل عام کے درجنوں واقعات کی انکوائری شامل تھی جو 'میدان جنگ سے باہر' کیے گئے تھے۔

رپورٹ میں 19 افراد کو آسٹریلین فیڈرل پولیس کو ریفر کیا گیا جب متاثرین کو معاوضہ ادا کرنے کی سفارش بھی کی گئی۔

2005 سے 2016 کے دوران افغانستان میں تعینات آسٹریلوی فوجیوں کی جانب سے کیے جانے والے ان اقدامات پر سالوں سے جاری تحقیقات کے بارے میں آسٹریلوی چیف آف ڈیفنس فورس آنگس کیمپبیل کا کہنا تھا کہ 'ایلیٹ فوجیوں میں قانون سے ماورا ہونے کا کلچر 'تباہ کن' ہے، جس کی وجہ سے ان دس سالوں میں ہونے والے مبینہ قتل عام کو چھپانا ممکن ہوسکا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'گشت کرنے والے کچھ فوجیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور ضابطوں کو توڑا، حقائق کو چھپایا اور جھوٹ بولا جبکہ قیدیوں کو قتل کیا گیا۔' انہوں نے افغان عوام سے 'سچے دل سے غیر مشروط' معافی بھی مانگی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'گشت کرنے والی ٹیم نے نئے ارکان کو قیدیوں کو قتل کرنے پر مجبور کیا تاکہ وہ اپنا پہلا شکار کرسکیں۔ یہ ہولناک رسم بلڈنگ (خون بہانا) کہلاتی ہے۔'

رپورٹ کے مطابق یہ جونیئر فوجی قتل کے بعد اس واقعے کو جھڑپ بنا کر ظاہر کرتے تھے۔

انگس کیمپبیل نے ایک قدم آگے بڑھے ہوئے یہ بھی کہا کہ 39 افغان شہریوں کے غیر قانونی قتل میں ملوث اہلکار اپنی رجمنٹ، افواج اور آسٹریلیا کی بدنامی کا باعث بنے ہیں اور ان سے جنگی جرائم کے قوانین کے تحت تفتیش کی جائے گی۔

انہوں نے 2007 سے 2013 تک افغانستان میں خدمات سر انجام دینے والی سپیشل آپریشن فورسز سے اعزازی میڈلز واپس لینے کا اعلان بھی کیا۔

امریکہ میں ستمبر 2001 میں ہونے والے حملوں کے بعد 26 ہزار آسٹریلوی فوجیوں کو افغانستان بھیجا گیا تھا، جنہوں نے امریکی فوج کے ساتھ ملک کر طالبان، القاعدہ اور دوسرے شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کی تھی۔

سال 2013 سے آسٹریلیا کے کمبیٹ فوجی سرکاری طور پر افغانستان سے واپس آ چکے ہیں لیکن اس کے بعد سے ان فوجیوں کی جانب سے کی جانے والی جابرانہ کارروائیوں کی تفصیلات منظر عام پر آ رہی ہیں۔

ان واقعات میں ایک کارروائی کے دوران ایک چھ سالہ بچے کو قتل کرنے سے لے کر ہیلی کاپٹر میں جگہ بنانے کے لیے ایک قیدی کو قتل کرنے جیسے واقعات بھی شامل ہیں۔

آسٹریلین حکومت نے اس رپورٹ کو چھپانے کی کوشش کی، تاہم وزیر اعظم سکاٹ موریسن نے گذشتہ ہفتے آسٹریلوی شہریوں کو 'تلخ اور سچائی پر مبنی حقائق' کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنے کا کہا۔

انہوں نے بدھ کو افغان صدر سے ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں اس بات کا بھی یقین دلایا کہ آسٹریلوی حکومت ان واقعات کی تحقیق کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے۔

جبکہ افغان صدر کے دفتر کی جانب سے اس گفتگو کی ایک اور تشریح سامنے آئی، جس میں کہا گیا کہ سکاٹ موریسن نے اپنی ٹویٹس میں ان واقعات پر شدید رنج کا اظہار کیا لیکن آسٹریلوی حکام نے اس بات کی تردید کی ہے۔

گذشتہ ہفتے آسٹریلوی وزیر اعظم نے خصوصی تفتیش کار کی تعیناتی کا اعلان کیا تھا جو ان مبینہ جنگی جرائم کی تفتیش کرے گا تاکہ عالمی عدالت انصاف میں ہونے والی کسی کارروائی کا راستہ روکا جا سکے۔

آسٹریلوی افواج کے خلاف یہ الزامات ان کی ساکھ پر شدید ضرب ہیں جن کو عوام کی نظر میں قابل عزت مقام حاصل ہے۔

آسٹریلوی افوا نے گیلی پولی سے پہلی عالمی جنگ، کوکودا اور پھر دوسری عالمی جنگ کے دوران ملک کی شناخت کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

آسٹریلوی حکومت ماضی میں آسٹریلوی فوج کی جانب سے کیے جانے غلط کاموں کو چھپانے کی کوشش کرتی رہی ہے جبکہ پولیس نے ان اقدامات کو رپورٹ کرنے والے صحافیوں سے تفتیش بھی کی تھی۔

یہ معاملہ پہلی بار 2017 میں اس وقت سامنے آیا جب اے بی سی نامی نشریاتی ادارے نے 'افغان فائلز' کے نام سے مواد نشر کیا جن میں آسٹریلوی فوجیوں کے ہاتھوں غیر مسلح افغان شہریوں اور بچوں کے قتل عام کو رپورٹ کیا گیا۔

جس کے ردعمل میں آسٹریلوی پولیس نے اے بے سی کے دو رپورٹرز کے خلاف خفیہ معلومات حاصل کرنے پر تفتیش کا آغاز کر دیا تھا جبکہ گذشتہ سال سڈنی میں نشریاتی ادارے کے دفتر پر چھاپہ بھی مارا گیا تھا، تاہم بعد میں یہ کیس ختم کر دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا