’مرضی کو چیلنج کرنے پر‘ رواں سال 85 سے زیادہ خواتین قتل

رواں سال اپریل سے اگست کے پہلے ہفتہ تک لاہور میں بھی جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن رہا مگر اس کے باوجود اب تک غیرت کے نام پر 85 سے زائد خواتین کو قتل کیا گیا ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور میں گذشتہ سال غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 71 تھی (اے ایف پی)

دنیا بھر کے دیگر شہروں کی طرح رواں سال اپریل سے اگست کے پہلے ہفتہ تک لاہور میں بھی جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن رہا مگر اس کے باوجود اب تک غیرت کے نام پر 85 سے زائد خواتین کو قتل کیا گیا ہے۔

پولیس ریکارڈ کے مطابق لاہور میں گذشتہ سال غیرت کے نام پر خواتین کو قتل کرنے کے درج ہونے والے مقدمات کی تعداد 71 تھی۔

لاہور پولیس کے اپنے ریکارڈ کے مطابق جنوری سے اب تک سٹی ڈویژن میں خواتین کے قتل کے 11 مقدمات رپورٹ ہوئے، صدر ڈویژن میں 10 جبکہ ماڈل ٹاؤن ڈویژن میں نو خواتین قتل ہوئیں۔

اسی طرح اقبال ٹاؤن میں 14 خواتین قتل ہوئیں، سول لائنز میں 12 اور کینٹ ڈویژن میں سب سے زیادہ 28 خواتین کے قتل کی ایف آئی آر درج ہوئیں۔

ان واقعات کے علاوہ کئی واقعات ایسے بھی ہیں جو رپورٹ نہ ہو سکے۔

پولیس نے بیشتر مقدمات میں ملزمان کو گرفتار تو کیا لیکن مدعی رشتہ دار ہونے پر کئی مقدمات میں صلح ہوگئی بعض ابھی بھی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں اضافہ کیوں؟

 یہ سوال جب ایس ایس پی انوسٹی گیشن لاہورعبدالغفار قیصرانی سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ان مقدمات میں ملوث بیشتر ملزمان کی گرفتاری کے بعد تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ ملزمان نے گھر میں اپنی مرضی کو چیلنج کرنے پر انتہائی سنگین قدم اٹھایا۔

’باپ اور بیٹے نے ان کی مرضی کے رشتہ سے انکار پر دو لڑکیوں کو قتل کیا، سوتیلے بیٹے نے باپ کی دوسری شادی پر سوتیلی ماں کو اس لیے قتل کیا کہ اس نے شادی کیوں کی، سوتیلے بیٹے نے ماں کو اس لیے قتل کیا کہ اس نے اس کے باپ سے طلاق تو لے لی لیکن سوشل میڈیا پر کئی غیر مردوں سے رابطہ رکھتی تھیں۔‘

انہوں نے کہا کہ برائے نام غیرت کو وجہ بنا کر قتل کرنے والے ملزم جانتے ہیں کہ ان کو اتنا سنگین جرم کرنے پر بھی سزائے موت نہیں ہوگی کیونکہ ایسے کیس میں مقتول کا کوئی وارث مدعی بنتا ہے کچھ عرصہ بعد وہ اپنا عزیز ہونے کی وجہ سے ملزمان کو معاف کر دیتا ہے۔

ایس ایس پی کے مطابق پولیس کی جانب سے 302 کے ساتھ اگر 311 کی دفعہ لگائی جائے تو اس کو پولیس کی بدنیتی تصور کیا جاتا ہے کیونکہ ملزم اور مدعی پولیس پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں کہ اس میں پولیس کا ذاتی مفاد ہے جس کے تحت وہ خود مدعی بن رہے ہیں۔

ماہر قانون میاں داؤد کے مطابق قتل کے جرم میں 302 اے بی او سی کی دفعات موجود ہیں جس کے تحت پہلی سزا تو قصاص یعنی خون کا بدلہ خون ہے، دوسری سزا میں قاتل ثابت ہونے پر سزائے موت یا عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، تیسری سزا میں 25 سال قید اور جرمانہ شامل ہے۔

’لیکن ان کے ساتھ دیئت کا قانون بھی موجود ہے، مقتول کے مدعی اگر دئیت لے لیں یا ملزم کو معاف کر کے راضی نامہ کر لیں تو قانون اس کی مخالفت نہیں کر سکتا لہذا پولیس کو ایسے مقدمہ میں 311 کی دفعہ شامل کرنی چاہیے تاکہ معافی نامہ یا دئیت نہ ہو سکے اور ملزم کو کڑی سزا ملے۔‘

عورتوں کا تحفظ کیسے ہوسکتا ہے؟

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی صحافی محمل سرفراز نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا لاک ڈاؤن کے دوران خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کی شرح میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خوتین پر تشدد کے واقعات تو پوری دنیا میں ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ جو غیرت کا کلچر ہے اس نے خواتین کی زندگیوں کو بھی خطرہ میں ڈال رکھا ہے کیونکہ یہاں کسی بھی سطح پر اسے روکا نہیں گیا۔

محمل کے مطابق جب تک معاشرے میں خواتین کو برابر کا انسان نہیں سمجھا جائے گا ان کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

’زیادتی کا ایک واقعہ ہوتا ہے پولیس کی ناکامی کی وجہ سے اور سی سی پی او لاہور خواتین کو ہی قصور وار ٹھہراتے ہیں تو اس کا کیا پیغام جائے گا؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا کہنا ہے کہ ’مردوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کسی چیز یا جائیداد کی طرح عورت بھی ان کی ملکیت ہے کیونکہ یہاں ملکیت کے لیے ذن، زر اور زمین کی اصطلاع ابھی بھی موجود ہے۔ خواتین پر احساس ملکیت کے باعث ان کی مرضی تو کیا ان سے یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ ان کا رشتہ کس سے اور کیوں کیا جا رہا ہے۔‘

’عورتوں کے حقوق سے متعلق قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر پوری طرح عمل درآمد نہیں کیا جا رہا نہ ہی رویے تبدیل ہوئے۔‘

ان کے مطابق عورتیں اگر اپنے حقوق اور تحفظ کے لیے کوئی ریلی یا مارچ بھی کرتی ہیں تو اس پر ’شدید تنقید اور بد چلنی‘ جیسے الزام عائد کیے جاتے ہیں جبکہ ’مرد حضرات آئے روز جلسے جلوس اور ریلیاں نکالتے ہیں ان سے کوئی سوال نہیں کرتا۔‘

محمل سرفراز نے کہا کہ ’ہم نے خواتین کے حقوق سے متعلق چارٹر آف ڈیمانڈ بنا کر ایک خط کی صورت میں حکومت کو ایک ہفتہ پہلے دیا لیکن اس پر کوئی عمل درآمد کرنے کو تیار نہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں بعض قبیلوں نے اعلانیہ کہا تھا کہ غیرت کے نام پر قتل ان کی روایت ہے جو تبدیل نہیں ہوگی اس کے بعد کسی نے اس روایت کو چینلج کرنے کی کوشش نہیں کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین