’بھارتی ہمیں آتنک وادی بلاتے تھے لہٰذا واپس پاکستان آ گئے‘

کچھ عرصہ قبل صوبہ سندھ کے تین اضلاع سے بھارت منتقل ہونے والے 11 ہندو خاندانوں کے 46 افراد پریشان کیے جانے پر واپس پاکستان آ گئے۔

پاکستان واپس پہنچنے پر ہندو خاندانوں کا والہانہ استقبال کیا گیا (تصویر ظفر منگی)

سندھ کے ضلع سانگھڑ کی بوبی گیس فیلڈ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کے بے زمین کسانوں پر مشتمل ایک خاندان سمیت صوبے کے تین اضلاع سے کچھ عرصہ قبل بھارت کے شہر نئی دہلی منتقل ہونے والے 11 ہندو خاندانوں کے 46 افراد جمعے کو واپس پاکستان پہنچ گئے۔  

واہگہ بارڈر سے پاکستان میں داخل ہونے کے بعد گاؤں پہچنے پر سانگھڑ کی ضلعی انتطامیہ نے استقبالی کیمپ لگاکر ان خاندانوں کا استقبال کیا اور پھولوں کے ہار پہنائے گئے۔ واپس پہنچنے والے خواتین و افراد میں سے 15 کا تعلق سانگھڑ، 19 میرپورخاص اور 10 کا تعلق ٹنڈو اللہ یار سے ہے۔  

محکمہ اطلاعات سانگھڑ کے ڈپٹی ڈائریکٹر ظفر منگی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وطن واپسی کے بعد نوجوان پُرجوش انداز میں ’پاکستان زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے رہے۔  

بھارت سے واپس آنے والی جمنا کچھی نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے مذہبی رسومات کے لیے بھارتی ویزا لیا تھا، سب سے پہلے وہ ہندوؤں کے مقدس مقام ہریدوار گئے، جہاں سے نئی دہلی چلےگئے، وہاں موجود ان کے کچھ جاننے والے پاکستانی ہندوؤں نے کہا کہ آپ ادھر ہی رک جائیں، کوئی نیا قانون آیا ہے جس کے بعد آسانی سے شہریت مل جائے گی۔

انہوں نے مزید بتایا ’کئی مہینے نئی دہلی کے ایک پناہ گزین کیمپ میں رہے، جہاں کوئی سہولت نہیں تھی، کھانا بھی پورا نہیں ملتا تھا۔ وہاں کے لوگ ہمیں پاکستانی کہہ کر پکارتے تھے، ہم وہاں خود کو کمتر سمجھتے تھے۔پھر جب کرونا (کورونا) لاک ڈاؤن کے باعث حالات مزید خراب ہوئے تو ہم نے وطن واپس آنے کا فیصلہ کیا۔‘ 

بھارت جانے والے ایک نوجوان فقیرو کچھی نے بتایا: ’ہم ہندو ہیں مگر بھارتی ہندو ہمیں ہندو کی بجائے پاکستانی سمجھتے ہیں۔ ہم شلوار قمیص پہنتے ہیں، اس لباس کو دیکھ کر لوگ ہمیں آتنک وادی (دہشت گرد) بلاتے تھے تو ہم نے سوچا یہاں مستقبل نہیں ہے اس لیے واپس آگئے۔‘ 

 یاد رہے کہ گذشتہ سال وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے بھارت میں شہریت کا نیا متنازع قانون متعارف کرایا تھا، جو بھارت میں غیر قانونی طور پر مقیم ہندوؤں، مسیحیوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کو بھارتی شہریت دینے کی اس صورت میں یقین دہانی کراتا ہے اگر وہ یہ ثابت کریں کہ انہیں پڑوسی مسلمان اکثریتی ملکوں مثلاً بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان میں مذہبی جبر کا سامنا ہے، اس قانون کا اطلاق مسلمانوں پر نہیں ہوتا۔ 

شہریت کے اس متنازع قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کرنے کے خلاف بھارت بھر شدید غصہ پایا گیا اور کئی شہروں میں پُرتشدد مظاہروں میں ہلاکتوں کے ساتھ سینکڑوں گرفتاریاں بھی ہوئیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 اس قانون کے بعد بھارتی میڈیا دعویٰ کرتا رہا کہ اب خاص طور پر پاکستانی ہندوؤں کا بڑے پیمانے پر انخلا ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا۔ پاکستان میں ہندو برادری آبادی کے لحاظ سے بڑی اقلیتی برادری سمجھی جاتی ہے۔ 

 سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہندوؤں کی آبادی 60 لاکھ کے قریب ہے مگر نمائندہ ہندو تنظیمیں دعویٰ کرتی ہیں کہ پاکستانی ہندوؤں کی تعداد 80 لاکھ سے زائد ہے۔ پاکستان میں ہندو برادری کی اکثریت سندھ میں رہتی ہے۔ 

چوں کہ ہندومت کے اکثر مقدس مقامات بھارت میں ہیں اس لیے پاکستانی ہندو اپنی مذہبی عبادات کے لیے بھارت جاتے رہتے ہیں۔ پاکستان میں موجود بھارتی سفارت خانے سے ویزا لینے والوں میں اکثریت پاکستانی ہندوؤں کی ہوتی ہے۔  

تاہم جب یہ پاکستانی ہندو خاندان اپنی مذہبی رسومات کے لیے بھارت پہنچتے ہیں تو بھارتی ذرائع ابلاغ ان کی آمد کو کچھ اس انداز میں پیش کرتا ہے کہ یہ خاندان مبینہ طور پر بھارتی شہریت کے خواہش مند ہیں۔ کئی خاندان جو سندھ سے مستقل طور پر بھارت چلے گئے تھے، ان کی اکثریت حالیہ مہینوں میں بھارت سے یہ کہتے ہوئے واپس آئے ہیں کہ وہاں کے لوگ انھیں اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان