اسرائیل مشرق وسطیٰ میں نوآبادیاتی طاقت ہے:شہزادہ ترکی کی تنقید

بحرین میں جاری ایک کانفرنس میں سعودی عرب کے سابق انٹلیجنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کی حکومت کو ’مشرق وسطی میں مغربی نوآبادیاتی طاقتوں میں سے آخری‘ قرار دیا اور اس پر سعودی عرب کو بدنام کرنے کے لیے غیر ملکی ’میڈیا ہاؤنڈز‘ چھوڑنے کا الزام لگایا۔

سعودی شاہی خاندان کے ایک سینئیر شہزادے نے اسرائیل پر تنقید کرتے ہوئے اسے مغربی نو آبادیاتی ملک قرار دے دیا۔

امریکی میڈیا ادارے ’بلوم برگ‘ کے مطابق اتوار کو ہمسایہ ملک بحرین کے دارالحکومت مانمہ میں ایک سیکیورٹی کانفرنس سے خطاب کے دوران سعودی عرب کے سابق انٹلیجنس چیف شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کی حکومت کو ’مشرق وسطی میں مغربی نوآبادیاتی طاقتوں میں سے آخری‘ قرار دے دیا اور اسرائیل پر سعودی عرب کو بدنام کرنے کے لیے غیر ملکی ’میڈیا ہاؤنڈز‘ چھوڑنے کا الزام بھی عائد کیا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ تعلقات معمول پر لانے کا عمل زیادہ آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک سعودی عرب اس میں شامل نہیں ہو جاتا۔

انہوں نے مزید کہا: ’آپ درد کش ادویات کے ساتھ کھلے زخموں کا علاج نہیں کرسکتے ہیں۔‘

’بلوم برگ‘ کے مطابق ان کا یہ بیان سعودی شاہی خاندان کے دیگر افراد اور عہدیداروں سے بالکل مختلف تھا جنہوں نے فلسطینی قیادت کی مذمت کی ہے اور اسرائیل کے ساتھ اپنے خلیجی ہمسایہ ممالک کے قائم کردہ تعلقات پر تنقید کرنے سے گریز کیا ہے۔

اگرچہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جلد ہی اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کا امکان نہیں رکھتا ہے تاہم ایران کے ساتھ مشترکہ اختلافات کے سبب حالیہ برسوں میں ان ممالک کے درمیان تعلقات میں زیادہ گرم جوشی پیدا ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیلی میڈیا کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے حال ہی میں خفیہ طور پر سعودی عرب کا دورہ کیا اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات بھی کی ہے جبکہ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے ایسی کوئی بھی ملاقات ہونے سے انکار کیا ہے۔

یاد رہے شہزادہ ترکی اس وقت کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ انہوں نے یہ بیان اپنی ذاتی ’ذاتی حیثیت‘ میں دیا ہے۔ تاہم سعودی شاہی خاندان کے ایک سینئیر رکن کا عوامی طور پر مملکت کے موقف سے ہٹ کر بیان جاری کرنا ایک غیر معمولی بات ہے۔

ان کے بیان کے کچھ ہی لمحوں کے بعد اسرائیلی وزیر خارجہ گابی اشکنازی ویڈیو لنک کے ذریعے سکرین پر نمودار ہوئے اور شہزادے ترکی کے بیان پر ’اظہار افسوس‘ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ مشرق وسطی میں ہونے والی تبدیلیوں اور سوچ کی عکاسی کرتے ہیں۔‘

اسی کانفرنس میں ہفتے کے روز گفتگو کرتے ہوئے سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے اس بات پر زور دیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین تنازعات کے حل کے بعد ہی سعودی حکومت اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے گی۔
سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے خیال میں اسرائیل خطے میں اپنی جگہ بنا لے گا لیکن ایسا ہونے کے لیے ہمیں فلسطینیوں کے لیے ایک ریاست حاصل کرنے اور اس صورت حال کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

ابراہیمی معاہدہ 

اس سے قبل اتوار کو ہی اس سکیورٹی کانفرنس میں بات کرتے ہوئے اسرائیل کے وزیرخارجہ  گبی اشکنیزی نے اگست میں خلیجی ریاستوں کے ساتھ طے پانے والے ’ابراہیمی معاہدہ‘ کے بارے میں کہا تھا کہ وہ فلسطینیوں کی قیمت پر نہیں کیا گیا بلکہ یہ ان کے لیے ایک موقع ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ 2014 میں دونوں فریقین کے مابین مذاکراتی عمل منجمد ہونے کے بعد یہ سفارتی تبدیلی فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تنازعات کے حل میں مدد دے سکتی ہے۔

اپنے ورچوئل خطاب میں انہوں نے کہا: ’ابراہیمی معاہدہ فلسطینیوں کی قیمت پر نہیں کیا گیا بلکہ یہ ایک ایسا موقع ہے جس سے انہیں محروم نہیں رہنا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا