کرائسٹ چرچ حملہ آور یوٹیوب سے متاثر ہوا، رپورٹ

گذشتہ سال نیوزی لینڈ میں مساجد پر حملے کی آٹھ سو صفحات پر مشتمل جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ کیسے حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ سکیورٹی اداروں کی نظروں سے بچتا رہا اور کن آن لائن پلیٹ فارمز سے متاثر ہوا۔

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں گذشتہ برس مساجد پر ہونے والے حملے کی جامع رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ حملہ آور نے کیسے حملہ کرنے سے پہلے حکام کو چکمہ دیا۔

15 مارچ 2019 کو پیش آنے والے اس حملے میں 51 مسلمان شہری ہلاک ہو گئے تھے۔ منگل کو نیوزی لینڈ کے رائل کمشن کی جانب سے آٹھ سو صفحات پر مشتمل جاری کردہ رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ نے حملہ کرنے سے قبل اپنا منصوبہ کسی پر ظاہر نہیں کیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رپورٹ میں سامنے آیا ہے کہ کئی ایجنسیز کے پاس اس حملے سے متعلق کوئی اطلاع نہیں تھی سوائے اس مینی فیسٹو کے، جو برینٹن ٹیرنٹ نے حملہ کرنے سے آٹھ منٹ قبل آن لائن جاری کیا تھا۔ ایجنسیز کے پاس ردعمل کے لیے وقت بہت کم تھا۔

رپورٹ میں پولیس کی اسلحے کی ویٹنگ کے نظام کی ناکامی کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور اس کے مطابق نیوزی لینڈ پولیس کی تمام تر توجہ اسلامی شدت پسندی پر مرکوز تھی جبکہ سفید فام شدت پسندی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔ رپورٹ میں شامل 44 تجاویز میں ایک نئی انٹیلی جنس ایجنسی کے قیام کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے اس رپورٹ کی تمام سفارشات پر عمل کرنے پر اتفاق کر لیا ہے اور وہ اپنی ایجنسی کی ناکامی پر معذرت خواہ ہیں۔ حملے کے فوری بعد انہوں نے جان لیوا ہتھیاروں پر پابندی کے حوالے سے قانون سازی کو یقینی بنایا تھا۔ دوسری جانب حزب اختلاف کی قدامت پسند جماعت کی رہنما جیوڈتھ کولنز کا کہنا ہے کہ رپورٹ کی سفارشات کی مزید جانچ کی ضرورت ہے تاکہ عوام کے حقوق اور آزادی کا تحفظ کیا جا سکے۔

مسلم ایسوسی ایشن کینٹربری کے ترجمان عبدغنی علی نے رپورٹ کے حوالے سے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ حکومتی ایجنسیز اور اداروں میں لاشعوری تعصب پایا جاتا ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے۔‘

حملہ آور پکڑے جانے سے کیسے بچتا آیا؟

30 سالہ حملہ آور برینٹن ٹیرنٹ کا تعلق آسٹریلیا سے ہے۔ انہیں اگست میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی جبکہ ان پر دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل کی 92 دفعات عائد کی گئی تھیں۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بچپن میں ٹرینٹ کو انٹرنیٹ تک غیر منظم رسائی حاصل تھی اور چھ یا سات سال کی عمر سے ہی وہ ویڈیو گیمز کھیلنا شروع ہوگئے تھے۔

انہوں نے چھوٹی عمر ہی سے نسل پرستانہ خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا تھا اور اپنی والدہ کو بتایا تھا کہ انہوں نے 14 سال کی عمر سے ہی فور چان انٹرنیٹ فورم استعمال کرنا شروع کیا تھا۔ نوعمری میں ان کا وزن کافی بڑھ گیا تھا، جس کے بعد انہوں نے جم میں ورزش اور ڈائٹنگ کے ذریعے تقریباً 50 کلوگرام وزن کم کیا۔

ٹیرنٹ کے والد روڈنی کو پھیپھڑوں کے کینسر کی تشخیص ہوئی تھی، جس کے بعد انہوں نے 2010 میں اپنے گھر میں خودکشی کرلی اور ٹیرنٹ کے لیے 457،000 آسٹریلوی ڈالر کی میراث چھوڑ گئے۔ حملہ آور نے آسٹریلیا کے ایک جم میں پرسنل ٹرینر کے طور پر ملازمت بھی کی تھی۔ اس کے علاوہ وہ بھارت، چین، روس، شمالی کوریا سمیت افریقہ اور یورپ کے کئی ممالک کا سفر بھی کر چکے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیرنٹ 2017 میں نیوزی لینڈ منتقل ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں نے اس حملے کی منصوبہ بندی شروع کی تھی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ٹیرنٹ کا صرف جم اور رائفل کلب میں لوگوں سے رابطہ ہوتا تھا جہاں انہوں نے خود کو دوسروں کے سامنے اس طرح پیش کیا تھا کہ ان کے بارے میں کسی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہیں ہوئے تھے۔

ٹرینٹ نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ اگرچہ وہ فور چان اور ایٹ چان جیسی ویب سائٹوں پر انتہائی دائیں بازو کے مباحثوں میں حصہ لیتے تھے، لیکن انہوں نے یوٹیوب کو معلومات کا ایک بہت زیادہ اہم ذریعہ پایا۔ یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے کہا کہ انہوں نے یوٹیوب کی انتظامیہ سے ’براہ راست‘ بات کرنے کا ارادہ کیا ہے کہ حملہ آور یوٹیوب ویڈیوز سے متاثر کیسے ہوا۔

نیوزی لینڈ میں بندوق کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے ٹیرنٹ کو پولیس کو دو ریفریز کے نام فراہم کرنا تھے جو ان کے اچھے کردار کی گواہی دے سکتے۔ انہوں نے پولیس کو اپنے ایک دوست کا نام بتایا جن کے ساتھ وہ آن لائن گیمز کھیلتے تھے جبکہ دوسرا نام اسی دوست کے والد کا تھا۔

ویٹنگ آفیسرز نے ٹیرنٹ اور ان کے ریفریز کا انٹرویو کرنے کے بعد انہیں لائسنس دینے کی منظوری دے دی تھی۔ پولیس کمشنر اینڈریو کوسٹر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنے میں کہ ٹیرنٹ بندوق رکھنے کے ’قابل‘ شخص تھے ہم مزید تحقیق کر سکتے تھے کہ کیا یہ ریفریز اس شخص کو اچھے سے جانتے ہیں اور اس کے ریفریز بن سکتے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا