یہ ہیں کرائسٹ چرچ کے سرکاری ’جادوگر‘

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک برطانوی شہری کو شہر کے سرکاری جادو گر کے طور پر 1998 سے سالانہ آٹھ ہزار پاؤنڈ ادا کیے جا رہے ہیں۔

آئن بریکنبری چینل کو ’جادوگر‘ کے سادہ نام سے جانا جاتا ہے (اے ایف پی)

نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں ایک برطانوی شہری کو شہر کے سرکاری جادو گر کے طور پر 1998 سے سالانہ آٹھ ہزار پاؤنڈ ادا کیے جا رہے ہیں۔

آئن بریکنبری چینل کو ’جادوگر‘ کے سادہ نام سے جانا جاتا ہے۔ 1970 کی دہائی میں آمد کے بعد سے انہیں دہائیوں سے جنوبی جزیرہ شہر میں دہائیوں سے باقاعدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت شہر کے مرکزی چوراہے میں کلیسا کے سامنے گزارتے ہیں۔ انہوں نے لمبا سیاہ رنگ کا لباس، نوک دار ہیٹ پہن رکھا ہوتا ہے۔ ان کی داڑھی گھنی ہے اور ان کے ہاتھ میں عصا ہوتا ہے۔

لیکن ان کی ’لارڈ آف دا رنگز‘ سلسلے کی فلموں کے ایک نمایاں کردار گنداف سے مشابہت اتفاقی ہے اور چینل کا اصرار ہے کہ ان کا کردار محض سیاحوں کو تفریح فراہم کرنے سے کہیں بڑا ہے۔ لارڈ آف دا رنگز نیوزی لینڈ میں فلمائی گئی تھیں۔ امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات کرنے والے سٹی کونسل کے ترجمان کے مطابق وہ 1998 سے کرائسٹ چرچ شہر کے سرکاری جادوگر ہیں۔ انہیں سٹی کونسل کی کی جانب سے سالانہ 16 ہزار نیوزی لینڈ ڈالر دیے جاتے ہیں۔

انہیں یہ رقم 'کرائسٹ چرچ شہر کی تشہیر کے کام کے حصے کے طور پر جادوگری اور جادوگر کی طرح کی دوسری خدمات کے لیے دی جاتی ہے۔' شہر کی تشہیر کے لیے ہر سال 200 گھنٹے کام کیا جاتا ہے جس میں مقامی تقریبات کا فروغ، سیاحت کی حوصلہ افزائی اور کرائسٹ چرچ آنے والی اہم شخصیات کا استقبال کرنا شامل ہے۔

کئی سال کے عرصے میں چینل کرائسٹ چرچ کی پہچان بن چکے ہیں۔ حتیٰ کہ امریکی آن لائن ٹریول کمپنی’ٹرپ ایڈوائزر‘ کی ویب سائٹ پر ان کا پیج اور ریٹنگ قائم ہو چکے ہیں اور وہ اکثر ٹاؤن میں ہونے والی شہری تقریبات میں دکھائی دیتے ہیں۔

انہوں نے سی این این کو بتایا کہ انہوں نے اپنے کردار کو ترغیب دلانے والے شخص کے طور پر دیکھا ہے جو انتظامیہ پر طنز کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دنیا ہر روز سنجیدہ ہو رہی ہے۔ اس لیے اس وقت دنیا میں تفریح ایک طاقتور شے ہے۔‘

ان کا زیادہ تر وقت کرائسٹ چرچ شہر کے چوراہوں میں فلسفے پر بات کرتے اور لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی سے لے کر نیوزی لینڈ میں ہونے والی مردم شماری میں ہونے والی مبینہ ناانصافیوں سے متعلق اپنے خیالات میں مصروف کرنے میں گزرتا ہے۔ جادوگری کا ان کا سفر اس وقت شروع ہوا جب وہ 1970 کی دہائی میں یونیورسٹی آف آسٹریلیا میں کام کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنی کلاسز میں زیادہ تفریح نامعقولیت لانے کی کوشش کی۔

یونیورسٹی انتظامیہ نے ان کے ساتھ انتہائی سرد مہری کا مظاہرہ کیا اور بالآخر اس وقت ان کی بیوی نے انہیں کل وقتی جادوگر بننے کے ان کے بڑھتے ہوئے عزم کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ لیکن سمندر پار، نیوزی لینڈ میں زیادہ خوش آمدید کہنے والا ماحول ملا۔ سٹی کونسل کی طرف سے تنخواہ مقرر کیے جانے سے پہلے انہیں ملک کی آرٹ گیلری ڈائریکٹرز ایسوسی ایشن کی طرف سے 1980 کی دہائی کا فن کا زندہ کام تسلیم کیا گیا۔

دا سٹی آف آک لینڈ  آرٹ گیلری نے تو انہیں رسمی طور پر اپنے فن پاروں کے ذخیرے میں شامل کر دیا ہے۔ ان کے فن کے انداز کو’فن کار کی جسمانی موجودگی‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کی قدروقیمت کو’بیش بہا‘ قرار دیا ہے۔ 2009 میں کرائسٹ چرچ کی شہری زندگی میں ان کا مقام تعین کرنے کے لیے انہیں کوئنز سروس میڈل دیا گیا تھا۔

اگرچہ انہوں نے قانونی طور پر اپنا نام تبدیل نہیں کیا، چینل کو برطانوی پاسپورٹ نیوزی لینڈ کا ڈرائیونگ لائسنس دونوں مل چکے ہیں۔ دونوں پر ان کا نام ’دا وزرڈ‘ درج ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کی ویب سائٹ پر ایک خط کی تصویر بھی موجود ہے جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ انہیں 1990 میں نیوزی لینڈ کے وزیراعظم کی طرف سے موصول ہوا جس میں انہیں’نیوزی لینڈ، انٹارٹیکا اور متعلق آف شور علاقوں‘ کا جادوگر بننے کہا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جادو ٹونے، رحمتوں، نحوستوں اور دوسرے ماورائے فطرت معاملات کے میدان میں ایسی پوشیدہ باتیں ہوں گی جو صرف ایک وزیراعظم کی اہلیت سے باہر ہیں۔‘

چینل، جن کی اس وقت عمر 87 سال ہے شہر کے جادوگر کی حیثیت سے اپنے فرائض کی انجام دہی کو ختم کر رہے ہیں لیکن اپنے آخری چھ  سال کے لیے انہوں نے ایری فری مین کو اپنا شاگرد بنایا ہے جنہیں امید ہے کہ وہ ایک دن جادوگر کی ذمہ داریاں وراثت میں پا لیں گے۔ انتالیس سالہ موسیقار فری مین جو محسوسات میں شدت پیدا کرنے والے فنک بینڈ کی سربراہی کر رہے ہیں انہیں یقین نہیں ہے کہ سٹی کونسل اس وقت ان کی خدمات انہیں شرائط پر حاصل کرے گی جن کے تحت چینل کی گئی تھیں جب بالآخر چینل اپنا ہیٹ اور عصا ٹانگ دیں گے۔

فری مین نے سی این این کو بتایا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ جادوگر کا وجود قائم رہے اور میں اس کردار کو بھرپور طریقے سے نبھاؤں گا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے سر کو ہلانے جلانے کے لیے کوئی کچھ غیر معمولی کام کرے تا کہ سوچ میں تبدیلی پیدا ہو اور ایسا کرنے والے لوگ جادوگر کہلاتے ہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا