انڈین کرونیکلز میں صحافیوں کے لیے کیا سبق ہے؟

رپورٹ میں اور بھی بہت سارے حیران کن انکشافات ہیں لیکن یہ وقت پاکستانی صحافیوں کا اس سب سے سبق سیکھنے کا ہے، جو بالکل ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 116 ممالک میں 750 سے زائد جعلی خبروں کی ویب سائٹس ملی ہیں جن میں جعلی صحافی پاکستان کے خلاف جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلا رہے تھے  (انڈین کرونیکلز)

اس سے پہلے کہ میں سوشل میڈیا اور خبروں میں گردش کرتی ہوئی یورپ کی ایک تحقیقاتی این جی او ’ای یو ڈس انفو لیب‘ کی رپورٹ کا ذکر کروں جس نے بھارت کے مفادات کی خاطر اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو اثر انداز کرنے کے لیے جعلی این جی اوز اور خبروں کی ویب سائٹس کا 15 سال پر محیط آپریشن بےنقاب کیا، میں پڑھنے والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اس ادارے کے معتبر ہونے کی پہلے تصدیق کی اور مطمئن ہونے کے بعد میں اس موضوع پر لکھنے جا رہا ہوں۔

یہ تحریر آپ منصف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

اگر آپ نے ’انڈین کرونیکلز‘ نامی رپورٹ نہیں پڑھی تو اس کو ضرور پڑھیں یہ میری آپ سے درخواست ہے۔ابھی کے لیے اس کا خلاصہ میں تحریر کر دیتا ہوں جو ہرگز اس مضبوط تحقیقات کے ساتھ انصاف نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق دنیا کے 116 ممالک میں 750 سے زائد جعلی خبروں کی ویب سائٹس ملی ہیں جن میں جعلی صحافی پاکستان کے خلاف جھوٹ پر مبنی خبریں پھیلا رہے تھے۔

اس رپورٹ نے دس سے زیادہ اقوام متحدہ سے تسلیم شدہ اور غیر تسلیم شدہ غیر سرکاری تنظیموں اور تھنک ٹینکس کی نشان دہی کی جو انسانی اور اقلیتی حقوق کے مسائل کا استعمال کرتے ہوئے جینیوا میں اقوام متحدہ میں پاکستان کے خلاف لابی کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ میں اور بھی بہت سارے حیران کن انکشافات ہیں لیکن یہ وقت پاکستانی صحافیوں کا اس سب سے سبق سیکھنے کا ہے، جو بالکل ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا۔

جہاں ان نقلی صحافیوں کی جھوٹی خبریں بھارت کی مشہور اور اب سابق ’معتبر‘ اخباری ایجنسی اے این آئی نے اپنے فورم پر اٹھا کر اسے سچی خبر کا درجہ دیا، وہیں پاکستانی اخباروں نے بغیر تصدیق کے انہیں شائع کیا۔ شاید ’شائع ‘ صحیح لفظ نہیں ہے، انہوں نے تو پورا چھاپا لگایا۔

سکول میں اساتذہ صحیح کہتے تھے کہ نقل کے لیے بھی عقل چاہیے۔ جو طالب علم اپنا ذہن استعمال کیے بغیر امتحانات میں نقل کی غرض سے ’چھاپا‘ لگاتا تھا اس کا انجام ہم سب نے دیکھا ہوا ہے۔

اس معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ بجائے اس کے کہ اپنی ذہنی مشق کرتے، وہ جو بھی یورپ سے مصالحے دار خبر آتی، اسے چھاپ دیتے۔

ایکسپریس ٹریبیون، دی نیوز، پاکستان ٹوڈے اور خدا جانے کتنے اور اداروں نے بغیر تصدیق کے سابق آمر صدر جنرل پرویز مشرف اور سابق آرمی چیف جنرل کیانی کے سوئس بینک اکاؤنٹس کی جھوٹی خبر شائع کیں، جن کا سورس اے این آئی تھا۔

اس خبر کا مرکزی کردار کون تھا؟

’جیمز ڈی کرکٹن‘ لندن میں مقیم ایک تحقیقاتی صحافی ہیں، انڈین کرونیکلز میں اس کردار کو ممکنہ نقلی شخصیت کہا گیا ہے، جن کی اس کرہ ارض پر موجودگی کا ثبوت سوائے اس کے کہ وہ پاکستان کے خلاف کالم لکھیں گے، نہیں ملتا۔

کیا یہ صحافیوں کا کام نہیں تھا کہ اتنی بڑی اور سنسنی خیز خبر لکھنے والے نام نہاد صحافی کی تصدیق کرتے، کیا کسی کے معتبر یا قابل یقین ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ انگریز ہے یا انگریزوں والا نام ہے۔

کیا یورپ کے کسی صحافتی ادارے یا صحافی کو ایک ای میل کر کے اس کردار کی تصدیق نہیں کی جا سکتی تھی۔ کیا اتنا بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ اس مبینہ ’شخص‘ سے وہ دستاویز ہی مانگ لیتے جس کی بنیاد پر اس نے اتنا بڑا دعویٰ کیا۔

خود احتسابی کا عمل شروع  کرنے اور اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے برعکس میرے کچھ عزت مآب سینیئر پیر مرشد اور جانے مانے صحافی غیرمعقول باتیں کر رہے ہیں۔

ضرار کھوڑو کو میں بڑے شوق سے سنتا اور پڑھتا ہوں۔ انہوں نے ٹویٹ کے ذریعے جینیوا اور برسلز میں موجود پاکستانی مشن سے برادرانہ لہجے میں سوال کیا کہ وہ سب کدھر تھے جب یہ ہو رہا تھا۔

میرے جوان صورت بزرگ استاد جس یورپی این جی او نے یہ تحقیقات کی ہیں وہ یورپی یونین یا کوئی سرکاری ادارہ نہیں ہے۔ متعدد ملکوں کے صحافیوں نے مل کر یہ تحقیقات کی ہیں۔

آج کل کے دور میں ’فیکٹ چیک‘ یعنی خبروں کی تصدیق کرنا یا تحقیقاتی صحافت کرنا صحافیوں کا اولین فرض ہے۔

کسی بھی غیر سرکاری ادارے کی ریسرچ اور تحقیقات پر پانچ سے آٹھ گھنٹوں میں خبر بنوانا عادت بن گئی ہے۔ اس بہانے نہ ہی اس پائے کی تحقیقاتی رپورٹنگ کی جاتی ہے نہ ہی ایسے اداروں  کی ریسرچ یا رپورٹ کو باریک بینی سے دیکھا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’فلاں ادارے نے لکھی ہے، درست ہی ہو گی‘ والا مزاج اب ترک کر دیں اور اپنے اداروں میں صحافیوں کی مختلف مضامین میں ماہرانہ صلاحیت پیدا کرنے کے لیے خصوصی اقدام کیجیے۔

بجائے صرف اس وجہ سے کہ کوئی ماہر بہت مشہور ہے اور اس کا بڑا چرچہ ہے آپ اس کی ہر بات کو آنکھیں بند کر کے تسلیم کر لیں کیا اچھا نہیں۔ یہ بات زیادہ معقول نہیں کہ الله تعالیٰ کی بہترین نعمت مغز شریف کو استعمال کرتے ہوئے اپنے معتبر اخبار میں کالم چھپنے سے پہلے اتنا ہی ان سے پوچھ لیں کہ قبلہ جس قومی تعلیمی نصاب پر آپ تنقید کر رہے ہیں کیا وہ عام ہو چکا ہے؟ کیا آپ نے اسے پڑھ لیا ہے؟

یہ انڈین نیٹ ورک یورپی یونین پر اثر انداز ہو رہا تھا تو وہاں کی این جی او نے تحقیق کر دی لیکن ان معاملات کو کون دیکھے گا جس نے فقط ہم پر ہی اثر ڈالا ہے۔

اسی سال سوشل میڈیا اور مختلف اخباروں میں اسلامی تاریخ کے عظیم اور اہم حاکم جناب عمر بن عبدل عزیز کے مقبرے کی بے حرمتی کی خبر اندھا دھند ہر طرف چھاپی گئی۔

کسی نے اتنی توفیق نہیں کی کہ یہ دیکھ لے کہ ترکی کے اخبار نے جس محلے کا ذکر کیا تھا، کیا ان کا مقبرہ وہاں ہی ہے یا مشہور ویب سائٹ وکی پیڈیا پر جس مقام پر ان کے مقبرے کی موجودگی کا ذکر ہے کیا وہ ٹھیک ہے؟

ترکی کے اخبار کا ذریعہ ایک باغی کی ٹویٹ تھی، کیا اس آرٹیکل میں وہ ٹویٹ موجود تھی؟

صحافتی اصولوں کے مطابق کم از کم دو ذرائع سے تصدیق ہونے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکتا ہے کہ خبر میں کوئی وزن ہے یا نہیں۔ کم از کم ’سرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ کی اس دن کی رپورٹ ہی دیکھ لیتے کہ کیا ایسا کچھ انہوں نے بھی لکھا ہے؟

اور کچھ نہیں تو کم از کم فرقہ واریت کی اس خطرناک لہر کو بھانپتے ہوئے کسی کو بھیج کر ہی تصدیق کروا لیتے یا یہ بھی کسی حکومتی سائبر بریگیڈ کا کام تھا؟

ابھی بھی اس بارے میں کوئی تصدیق شدہ خبر نہیں ہے۔ مانا کہ ماضی کی تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے ریاستی اداروں کے دعوؤں پر مکمل طور پر یقین کرنا مشکل ہے لیکن ہمیں ہر معاملے کو اپنے تجربے کے ساتھ ساتھ تعصبات سے پاک ہو کر غیر جانبدارانہ رویے کے ساتھ دیکھنا ہوتا ہے۔

جب آئی ایس پی آر نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان مخالف ٹویٹس کے جال کی نشان دہی کی تھی تو ہمیں چاہیے تھا کہ اپنے طور پر پروگرامنگ کے آلات کا استعمال کر کے ان دعوؤں کی تصدیق کرتے۔

یہ انتہائی ضروری ہو چکا ہے کہ رپورٹنگ کرتے ہوئے صرف یہ نہ دیکھا جائے کہ کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ بھی دیکھا جائے کہ کہہ کیا کہ رہا ہے۔

صحافت کا مقصد عوام کی خدمت ہے، ان کے مفادات کا تحفظ ہے جو اس معاملے میں نہیں ہوا۔ صحافت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی نقصان نہیں ہو سکتا کہ پاکستانی عوام کا اخباروں سے اعتبار اٹھ جائے۔

موجودہ صحافتی اداروں کو مالی بحران سے صرف عام قارئین بچا سکتے ہیں۔ حکومت کے اشتہاروں سے آنے والا پیسہ کبھی بھی ان کے خراب موڈ کی نظر ہو سکتا ہے جبکہ نجی سیکٹر انٹرنیٹ کا استعمال کرکے زیادہ موثر طریقے سے اپنی اشتہاری مہم چلاتا ہے۔

آخر میں یہ عوام ہی ہیں جو بچا سکتے ہیں، بشرط کہ میعاری، معتبر، تصدیق شدہ اور شفافیت کے ساتھ صحافت کی جائے۔

اگر یہ بھی نہیں ہوتا تو کم از کم جو غلط خبریں شائع کی ہیں ان کی نشان دہی کر کے ان پر معذرت ہی کرلیں۔ غلطی ہو جاتی ہے، صحافی انسان ہوتے ہیں معذرت کرنے سے لوگوں کا کچھ اعتماد بحال ہو گا لیکن اگر غرور، تکبر اور زد میں یہ نہیں کرتے تو آپ خود صحافت کے دشمن بن رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ