’جب سب پیچھے ہٹ رہے تھے میں نے قدم بڑھانے کا فیصلہ کیا‘

’کوئی بھی شخص اگر یہ سوچ لے کہ اسے کچھ ایسا کرنا ہے کہ جس سے کسی کا بھلا ہو تو اسے کسی چیز کا خوف نہیں رہتا چاہے وہ کرونا ہی کیوں نہ ہو۔‘ 

بلقیس کو بھی مارچ کے مہینے میں کرونا ہوا تو انہوں نے قرنطینہ کا وقت گزارنے کے بعد بھی بطور رضاکار خدمات سر انجام دیں(تصاویر: بلقیس)

رواں سال فروری کا مہینہ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور پھر کوئٹہ والوں کے لیے بھی خوف و حراس لیے آیا تھا۔ جب پورے بلوچستان میں وبا پھوٹنے کا خدشہ پیدا ہو گیا تھا۔ 

خوف کے باعث لوگوں نے گھروں سے نکلنا بند کر دیا تھا۔ مصیبت کی اس گھڑی میں بہت کم لوگ ایسے تھے جو اپنی خدمات پیش کرنے کے لیے تیار ہوئے۔

ایسی ہی ایک خاتون بلقیس بھی ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر کرونا کی وبا کے دوران ایسے مریضوں کی دیکھ بھال کی جن کے قریب ان کے رشتہ دار بھی جانے سے کتراتے تھے۔ 

بلقیس بتاتی ہیں کہ ان کی ڈیوٹی قرنطینہ سینٹر میں تھی۔ ’مجھے اس کے تمام انتظامات سنبھالنے کا کام دیا گیا تھا۔‘

’ہمیں ایک طرف مریضوں کو سنبھالنا تھا تو دوسری جانب ان کے رشتہ داروں کے سخت رویے کا بھی سامنا تھا۔ جو اسے مرض ماننے سے انکاری تھے۔‘ 

بلقیس شکور نے اس وقت کو یاد کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ کام اس وجہ سے بھی مشکل تھا کہ کام کے علاوہ ان کے گھر والے بھی نہیں چاہتے تھے کہ وہ یہ کام کریں۔ 

معیشت میں ایم فل کرنے والی بلقیس کو ملک بھر سے کرونا کی وبا کے دوران صحت کے شعبے میں خدمات انجام دینے پر اینگرو کی طرف سے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔

یہ ایوارڈ آئی ایم دی چینج کے نام سے ہے۔ جس کے لیے 50 لوگوں نے درخواست جمع کرائی اور بلوچستان سے بلقیس کو منتخب کیا گیا۔  

بلقیس بتاتی ہیں کہ ’میں ہمیشہ سے چاہتی تھی کہ کچھ منفرد کام کروں یہ میرا ماننا ہے کہ مرنا ہر ایک کو ہے لیکن اگر کوئی اچھا کام کرکے مرے تو لوگ اسے یاد رکھتے ہیں۔‘ 

’جب کرونا کی وبا کے دوران رضاکار بننے کے لیے منتخب ہوئی تو میرے ساتھ 26 لوگ منتخب کیے گئے۔ ڈیوٹی پر صرف 16 آئے ان میں سے بھی صرف چار خواتین رہ گئیں باقی چلے گئے۔‘ 

بلقیس نے بتایا کہ جب وہ آخر میں اکیلی رہ گئیں تو خوف بھی زیادہ بڑھ گیا۔ میں نے سوچا کہ اتنا کر لوں گی کہ کوئی کہے کہ ہاں صرف اس خاتون نے اس وبا کے دوران کام کیا باقی سب چلے گئے۔‘ 

وہ کہتی ہیں کہ ’میرا حوصلہ اس وقت بڑھا جب مرد بھی پیچھے ہٹنے لگے اور میں ڈٹی رہی، پھر میں نے اس سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلقیس کو بھی مارچ کے مہینے میں کرونا ہوا تو انہوں نے قرنطینہ کا وقت گزارنے کے بعد بھی بطور رضاکار خدمات سر انجام دیں۔ 

’یہ تو عام بات ہے کہ کرونا کے دوران آپ کو کھانسی اور زکام ہوتا ہے لیکن اصل خوف یہ تھا کہ مجھے لگتا تھا کہ شاید میں کل کا دن نہ دیکھ سکوں گی۔‘ 

قرنطینہ کا مرحلہ گزرنے کے بعد بلقیس کو پھر گھر والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کہ اب تو یہ کام نہیں کرنا لیکن انہوں نے ان کی پروا کیے بغیر رضاکارانہ طور پر کام جاری رکھا۔ 

وہ کہتی ہیں کہ مردوں کے ساتھ کام کرنا ویسے ہی مشکل ہے اور اگر یہ کام بلوچستان جیسے صوبے میں کیا جائے لیکن ’میں کام کے دوران اپنا جینڈر گھر میں چھوڑ کر آتی تھی۔ اس دوران اگر آپ نے خود کو خاتون سمجھنا محسوس کیا تو پھر بہت مشکل ہے کہ کام کر سکیں۔‘ 

بلقیس نے بتایا کہ ہماری قوم کی نفیسات اس طرح کی ہے کہ جب تک کسی چیز کو دیکھ نہ لیں ہم یقین نہیں کرتے، جس کی ایک بڑی مثال پولیو ہے۔ جسے اب لوگ نہیں مانتے ہیں۔‘ 

’کوئی بھی شخص اگر یہ سوچ لے کہ اسے کچھ ایسا کرنا ہے کہ جس سے کسی کا بھلا ہو تو اسے کسی چیز کا خوف نہیں رہتا چاہے وہ کرونا ہی کیوں نہ ہو۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت