سینیٹ کو عزت دو

وقت ہے کہ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں ملک میں الیکشن پراسس کے ضابطوں اور قاعدوں کا احترام کریں، دائیں بائیں سے کہنیاں مارنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

(تصویر بشکریہ سینیٹ آف پاکستان آفیشل فیس بک پیج)

بیٹھے بٹھائے حکومت کو بہت دور کی سُوجھی کہ پہلے سے متنازعہ پارلیمانی نظام میں ایک نئے تنازع کا آغاز کیا جائے اور تختہ مشق بنایا جائے پارلیمان کے ایوانِ بالا سینیٹ کو جس کی تشکیل میں پاکستان کی تعمیر مخفی ہے۔

وہ ایوان جو وفاقِ پاکستان کی بھرپور اور بہترین مساوی نمائندگی رکھتا ہے، جہاں ہر چھوڑے بڑے صوبے کی آواز ہم مرتبہ ہے، جو درست اور دُور رَس معنی میں قومی برابری کی علامت ہے، اس ایوان کے انتخاب کے ساتھ بلاوجہ کی چھیڑ چھاڑ کا نیا شوشہ ڈال دیا گیا۔

ستم ظریفی ہے کہ سینیٹ الیکشن پہلے ہی کئی ادوار میں تنازعات اور اعتراضات کا شکار رہے ہیں۔ بریف کیسوں کا بھَرنا اور ووٹوں کا پھِرنا کوئی نئی بات تو نہیں لیکن ایوانِ بالا جیسے معزز پروقار مقام کے لیے شرمندگی کا باعث ضرور بنتے رہے ہیں۔

کئی ادوار میں حکومتوں اور سیاسی جماعتوں نے کوشش کی کہ سینیٹ الیکشن سے اِس عِلَّت کا خاتمہ کیا جائے لیکن بقول شاعر.... چھُٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی...  سو خاموش طرز کے کمپرومائز میں طے یہ پایا کہ فی الحال جو ہے جیسا ہے کے مصداق گزارا کیا جائے اور زبانی کلامی احتجاج بھی ہر الیکشن کے بعد جاری کیا جاتا رہے۔

پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں کے ادوار میں سینیٹ سے ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کی سنجیدہ کوششیں کی گئیں لیکن بھاری بھرکم آفرز خالی خولی اصلاحات کے نتیجے میں زیادہ بارآور ثابت ہوتی رہیں۔

اب تحریکِ انصاف کی حکومت نے ایک ایسے وقت میں سینیٹ الیکشن صاف شفاف کروانے کی ٹھانی ہے جبکہ قومی اسمبلی الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آنے والی حکومت کے خلاف‘ ’دھاندلی کی پیداوار‘ اور ’سلیکٹڈ‘ کے نعروں کے شور میں اپوزیشن کی تحریک زوروں پر ہے۔

کیا پی ٹی آئی حکومت چاہتی ہے کہ مقررہ آئینی مدت سے پہلے سینیٹ الیکشن کروا کے ’سلیکٹڈ‘ کی بازگشت ایوانِ بالا تک بھی پہنچ جائے؟

تمام جَیّد قابلِ احترام قانون دانوں کی رائے کے مطابق سینیٹ الیکشن مقررہ آئینی مدت سے پہلے نہیں ہو سکتے۔ یہاں تک کہ الیکشن کمیشن کے سابق افسران تک اِس رائے پر قائم ہیں۔

اطلاعات تو یہ بھی آئیں کہ الیکشن کمیشن نے بھی اِس سیاسی جلدبازی میں سینیٹ انتخابات مقررہ آئینی مدت سے پہلے کروانے سے عذر ظاہر کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر تو تحریکِ انصاف حکومت کی سوچ خالصتاً سینیٹ الیکشن سے ہارس ٹریڈنگ اور پیسوں کے لین دین کے خاتمے کی ہوتی تو اس کا واحد حل آئینی ترمیم انتخابی اصلاحات کے ذریعے ممکن تھا جس کے لیے حکومت اپوزیشن کو پارلیمان میں ایک سیر حاصل بحثی دورانیے کے ذریعے انگیج کرتی لیکن جہاں علامات ظاہر ہو جائیں راتوں رات ہونے والے فکرِ واحد پر مبنی فیصلوں کی وہاں ان فیصلوں کے محّرکات اور اثرات پر سوالات ضرور اٹھائے جاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ سیاسی طور پر تحریکِ انصاف کی سینیٹ الیکشن بارے چال ایک گہری (move) ہے لیکن بہرحال صرف ایک سیاسی چال ہی ہے۔ ایوانِ بالا جیسے معزز اور باوقار ایوان کو سیاسی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے۔

خدانخواستہ قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ الیکشن بھی اس طرح متنازعہ ہوگئے تو پارلیمانی اور جمہوری نظام پر ایک اور گہری ضرب پڑے گی جس کے نتائج خاکم بدہن استحکامِ پاکستان کے لیے فائدہ مند نہ ہوں گے۔

لہذا بہتر ہوگا کہ ایک نئے تجربے سے گریز کیا جائے اور ملک میں ہر الیکشن کے ساتھ محدود مفادات کے تحت کھلواڑ نہ کیا جائے۔

سینیٹ الیکشن کس طرح ہونے ہیں کس وقت پر ہونے ہیں آئینِ پاکستان نے ان تمام چیزوں کی کھُلی وضاحت دے رکھی ہے اور مزید رہنمائی کے لیے دیگر ادارے بھی موجود ہیں۔

وقت ہے کہ تمام ادارے اور سیاسی جماعتیں ملک میں الیکشن پراسس کے ضابطوں اور قاعدوں کا احترام کریں، دائیں بائیں سے کہنیاں مارنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے۔

امید ہے معزز سپریم کورٹ بھی اس حوالے سے آئین و قانون کو مقدّم رکھے گی۔ باقی جن باتوں کی کمی ہے یا الیکشن پراسس میں خامیاں ہیں تو سیاسی جماعتوں کو پارلیمان میں مل بیٹھ کر ہی اصلاحات کرنی ہیں یہی واحد طریقہ ہے اور یہی جمہوریت ہے اور اسی کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو چاہیے کہ سینیٹ کو عزت دیں پارلیمان کو عزت دیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ