آر یا پار

نہ تو جلسے جلوس سے حکومت ختم ہوگی نہ استعفوں سے اور نہ ہی شٹر ڈاؤن یا لانگ مارچ دھرنے سے۔

(اےایف پی)

پی ڈی ایم کا لاہور جلسہ کل ہوگا اور اس وقت تک پنجاب کی سیاست خوب گرما گرمی کا شکار ہے۔ تاوقتِ تحریر اپوزیشن کو مینارِ پاکستان پر جلسے کی اجازت تو نہیں ملی اور غالب امکان بھی یہی ہے کہ 13 دسمبر تک نہیں ملے گی۔

تو پھر ظاہر ہے پی ڈی ایم لاہور کی سڑکوں کو ہی جلسہ گاہ بنا لے گی۔ مریم نواز پہلے ہی لاہور کے خوابیدہ کسمساتے ہوئے شیر کو جگا چکی ہیں اور گذشتہ ایک ہفتے سے شہر کے ہر گلی کوچے کو کامیاب جلسہ گاہ بنا چکی ہیں لیکن ان کی اس مقبول سیاست کے (جس کی کامیابی یا ناکامی کا دور رَس فیصلہ طویل عرصے بعد ہوگا) پیچھے دیگر عوامی بھی کارفرما ہیں۔

سب سے بڑا براہ راست فائدہ تو نواز شریف کی صاحبزادی ہونے کا ہے جس کے جذباتی لگاؤ کا اظہار لاہور کے عوام کر رہے ہیں۔ دوسرا فیکٹر شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی گرفتاری کا ہے۔ اگر شہباز اور حمزہ جیل سے باہر ہوتے تو محتاط انداز میں کہا جا سکتا ہے کہ صورت حال مختلف ہوتی اور تیسرا بڑا اہم پہلو ملکی منظرنامے پر اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور جارحانہ سیاست کی طویل عرصے سے عدم موجودگی۔ مریم نواز نے اِن تمام عوامِل کا فی الحال درست وقت پر اور مناسب تناسب کے ساتھ قلیل مدتی اچھا استعمال کیا ہے۔

لیکن طویل مدت میں یا جسے سیاست کی لمبی ریس کہا جاتا ہے کیا وہاں مریم نواز دلعزیز عوامی سیاست دان بننے کے ساتھ ساتھ کیا اسٹیبلشمنٹ کے لیے قابلِ قبول وزیراعظم بن سکتی ہیں؟ اِس سوال کا جواب سب سے اہم ہے جو فی الحال تو مشکل نظرآتا ہے لیکن تاریخ جلد ہی اس کا فیصلہ بھی کر دے گی۔ مسلم لیگ ن تاریخی اور نظریاتی اعتبار سے کبھی بھی اینٹی اسٹیبلشمنٹ یا جارحانہ مزاج کی سیاسی جماعت نہیں رہی۔ خود نواز شریف کی نہ صرف سیاسی اٹھان اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ رہی، بلکہ وہ جب بھی اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوئے، مقتدر حلقوں کی کھُلی یا ڈھکی چھپی آشیرباد لازماً حاصل رہی۔

کیا شریف خاندان کی نئی نسل اینٹی اسٹیبلشمنٹ مزاحمتی راستہ اختیار کر کے بذریعہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کے پرائم منسٹر ہاؤس تک پہنچ سکتی ہے، اس کا سوال ہر حقیقت پسند کو معلوم ہے۔ خِرد کا ازلی تقاضہ بھی یہی ہے کہ معاملات میں میزان برقرار رہے تو دیر پا فوائد اور استحکام حاصل کیا جا سکتا ہے..... اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل..... بہر حال لاہور جلسہ تو ہونا ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ لیگی گڑھ ہونے کی بدولت ایک کامیاب جلسہ رہے گا لیکن اپوزیشن اگر اس آس پر بیٹھی ہے کہ جلسے جلوس ریلیوں سے حکومت گرالے گی تو ایسا فی الحال ممکن نہیں۔

ہاں البتہ اتنا ضرور ہوا ہے کہ حکومت کے رویے میں لچک اور لہجے میں تبدیلی ضرور آ رہی ہے۔ اسی لیے تو خود وزیراعظم عمران خان مسلسل اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دیے چلے جا رہے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ دونوں اطراف اعتماد کی شدید کمی ہے بلکہ بہت گہرا فقدان ہے۔ اگر حکومت واقعی اپوزیشن کو انگیج کرنا چاہتی ہے اور مخلص نیت رکھتی ہے تو شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، فواد چوہدری اور پرویز خٹک پر مشتمل کمیٹی فوری تشکیل دینی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب سے چوہدری برادران کی خدمات حاصل کرلی جائیں تو اور بھی بہتر رہے گا اور اپوزیشن سے باضابطہ جمہوری طور پر رابطہ کیا جائے۔ یہ نہیں کہ کابینہ اراکین فرداً فرداً رابطے کر رہے ہوں اور غیرسنجیدگی کا عنصر حکومتی جانب سے نمایاں ہو۔ مذاکرات کی طرف زبانی دعوت ہی نہ ہو عملی سنجیدگی کا مظاہرہ بھی کیا جانا چاہیے۔ ایک طرف تو حکومت اپوزیشن کو نیشنل ڈائیلاگ کی دعوت دیتی ہے دوسری طرف شیخ رشید کو وزیرداخلہ بنا کر ٹاسک سونپ دیتی ہے کہ اپوزیشن سے بھِڑ جاؤ نمٹ لو کَم چُک کے رکھو۔

یہ carrot and stick والی پالیسی حکومت کے لیے سازگار نہیں رہے گی۔ شیخ رشید کے بارے سب جانتے ہیں کہ وہ نواز شریف مریم نواز کے مخالف اور ہارڈ لائنر ہیں جبکہ شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے کہ موجودہ سیاسی تناؤ کی کیفیت میں حکومت اپوزیشن میں کس کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ شہباز شریف ایک بہترین شخصیت ہو سکتے تھے اس صورت حال میں، لیکن گذشتہ تین ماہ سے انہیں دوبارہ جیل میں جکڑ رکھا ہے اور حالت یہ ہے کہ ابھی تک ان کے خلاف ایک بھی ثبوت قائم نہیں کیا جا سکا۔

پی ڈی ایم کی اوالین صفِ اول کی قیادت تو ظاہر ہے مزاحمت کے بیانیے کو لے کر اس قدر آگے بڑھ گئی ہے کہ ان کے لیے حکومت کے ساتھ ڈائیلاگ کی میز پر بیٹھنا سیاسی طور پر موزوں نہیں۔ عقل مندی، ہوش مندی اور دور اندیشی کا تقاضہ ہوگا کہ شہباز شریف کو جیل سے باہر لایا جائے اور ان کی سربراہی میں شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، راجہ پرویز اشرف، شیری رحمان و دیگر معتدل اور قابلِ قبول لوگوں کے ساتھ نیشنل ڈائیلاگ کا آغاز ہو۔ نہ تو جلسے جلوس سے حکومت ختم ہوگی نہ استعفوں سے اور نہ ہی شٹر ڈاؤن یا لانگ مارچ دھرنے سے۔

فی الحال یہ اپوزیشن کے pressure tactics ہیں جن کا بخوبی استعال ہو رہا ہے لیکن یہ حکومت گرانے کے لیے کافی نہیں۔ ان حربوں سے حکومت کمزور تو ہو جائے گی مگر اپوزیشن اور حکومت کے مابین تصادم بھی بڑھتا چلا جائے گا جو نہ تو ملکی استحکام اور معیشت کے لیے سازگار ہوگا نہ ہی داخلی و بیرونی سکیورٹی چیلنجز کے لیے مفید جس کا فائدہ دشمن ملک اٹھا سکتے ہیں۔

پہلے ہی غلط فیصلوں اور کرونا کی وجہ سے ملکی معیشت کا بھَٹّہ بیٹھ چکا ہے اب اگر حالات مزید سیاسی بے یقینی کا شکار ہوتے ہیں تو مزید عدم استحکام اور گراوٹ کا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ تمام تر مسائل، معالات، اختلافات اور قضیوں کو حل کرنے کا بہترین اور واحد پائیدار فورم پارلیمان ہی ہے اور معاملات یہیں پر آ کر حل ہونے چاہیں اور اختتام بھی پارلیمان پر ہو۔

حکومت کو چاہیے پارلیمان کو توقیر اور وقعت دے اور اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ پارلیمان کو عزت دے۔ آر یا پار کا فائدہ کسی فریق کو نہیں ہوگا لہٰذا بہتر ہے توازن برقرار رہے اور اس کے لیے پہل حکومت کو کرنا ہوگا اور عملی اور فوری.

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ