کوئٹہ میں بننے والی افغان ڈش ’آش‘

 آش دوسری قوموں میں شاید غیر معروف ہو لیکن افغانستان میں رہنے والا ہر فرد اس کے ذائقے سے اچھی طرح واقف ہے اور اسے معلوم ہے کہ یہ کہاں سے مل سکتی ہے۔

بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ میں مقیم ہزارہ برادری اور افغان پناہ گزین اپنے جداگانہ طرز معاشرت اور کھانوں سے پہنچانے جاتے ہیں۔

کوئٹہ میں مقیم افغانستان سے ہجرت کرنے والے پشتون، ازبک، ترکمن اور ہزارہ برادری آج بھی اپنے کھانوں اور ثقافت کی وجہ سے الگ شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔

ایسا ہی ایک پکوان آش بھی ہے جس کے کچھ اجزا آج بھی افغانستان سے ہی منگوائے جاتے ہیں۔

افغان باشندوں کے مطابق آش ڈش وسط ایشیا سے افغانستان اور وہاں سے پھر ہجرت کرنے والے باشندوں کے ساتھ دوسرے ممالک منتقل ہوئی ہے۔

 آش دوسری قوموں میں شاید غیر معروف ہو لیکن افغانستان میں رہنے والا ہر فرد اس کے ذائقے سے اچھی طرح واقف ہے اور اسے معلوم ہے کہ یہ کہاں سے مل سکتی ہے۔

علی جان ہزارہ کا تعلق کوئٹہ سے ہے اور وہ علم دار روڈ پر ایک ہوٹل چلاتے ہیں۔

یہ ہوٹل علاقے میں افغان کھانوں کے حوالے سے مشہور ہے۔

یہاں آنے والے لوگ جدید کھانوں کی بجائے پرانے زمانے کے ذائقوں کو ترجیح دیتے ہیں۔

علی جان ہزارہ گذشتہ 12 سالوں سے یہ کام کررہے ہیں۔ وہ کابلی پلاؤ شوروا کے علاوہ آش بنانے کے بھی ماہر ہیں۔ جس کو وہ خاص ڈش بتاتے ہیں۔

ان کے بقول ’یہ ڈش ہمارے گھروں اور ہوٹلوں میں بنائےجانے والے کھانوں کی زینت ہے جس کو ہم بہت پسند کرتے ہیں۔‘

علی جان کے مطابق ’جب ہمارے ہاں کوئی مہمان آتا ہے۔ تو وہ کسی اور  چیز کی فرمائش نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے کوئی ایسی ڈش لائیں جو آپ کی اپنی ہو۔‘

’ہم سجھتے ہیں کہ یہ واحد ڈش ہے۔ جو ہماری اپنی ہے اور ہم اس کو اپنے دسترخوان کی زینت قرار دیتے ہیں۔‘

علی جان کو یہ تو نہیں معلوم کہ آش بنانا کب شروع ہوا لیکن انہوں نے بتایا کہ ہمارے آباؤ اجداد بھی کہتے تھے کہ یہ افغانستان میں رہنے والے لوگوں میں نسل در نسل منتقل ہورہی ہے۔

اس ڈش کی خاصیت ہے کہ اس میں آٹا، کرت ( جو بلوچ اور پشتون قبائل بھیڑ بکریوں کے دودھ سے بناتے ہیں) مزید ذائقے کے لیے قیمہ، لوبیا، چنے شامل کیے جاتے ہیں۔

اس کے کھانے والے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو افغانستان کے باشندے رہ چکے ہیں یا ان کے باپ دادا وہاں سے ہجرت کرکے آئے۔

علی جان نے بتایا کہ ’ہمارے پاس ہوٹل میں بہت سے لوگ آتے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کہ وہ کس قوم سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ ڈشوں کا پوچھ کر آش لانے کا ہی کہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واضح رہے کہ کوئٹہ میں افغان پناہ گزینوں اور ہزارہ برادری کی بڑی تعداد آباد ہے جو آج بھی اپنے روایتی کھانوں کو ہی مقامی اور جدید پر ترجیح دیتے ہیں۔

علی جان ہزارہ بتاتے ہیں کہ اس کو بنانےکا طریقہ مشکل نہیں۔ سب سے پہلے ہم خشک کردہ آٹے کو ابالتے ہیں۔ اس کے بعد اس میں قیمہ، لوبیا، ادرک چنے ڈالتے ہیں۔

یہ سب چیزیں ڈالنے کے بعد اس کو پکاتے ہیں اور رنگ تبدیل ہونےکے بعد اس کو پلیٹ میں ڈال کر اس پر کالی مرچ چھڑک کر گاہک کو پیش کرتے ہیں۔

علی جان کے مطابق اس ڈش کی خاص بات یہ ہے کہ یہ سردیوں کے لیے بہترین خوراک ہے۔ دوسری اس کو ذائقہ دار بنانے کے لیے ہم اپنے روایتی کرت کا استعمال کرتے ہیں جو ہم افغانستان سے منگواتے ہیں۔

اس کے کھانے والے بھی اس کی تعریف کرتے نہیں تھکتے جن میں ایک نوجوان ذیشان بھی ہیں۔

ذیشان  کہتے ہیں کہ یہ ہماری پسندیدہ ڈش ہے۔ میں گذشتہ دس بارہ سال سے اس کو گھر اور ہوٹلز میں کھاتا آرہا ہوں۔

’یہ سردیوں میں زیادہ استعمال ہوتی ہے اور ہم اکیلے اور دوستوں کےساتھ اس کو کھانے کے لیےہوٹلز کا رخ کرتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا