مردان: کچرے سے کھاد بنانے کا پہلا پروجیکٹ

غیر سرکاری ادارے ڈاکٹر اختر حمید خان ٹرسٹ اور غیرملکی این جی او نارویجن چرچ اینڈ این سی اے کے تعاون سے واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز کمپنی مردان روزانہ دوسوٹن کچرا اٹھاتی ہے، جسے نامیاتی کھاد بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔

خیبرپختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار بازاروں میں اکٹھے کیے جانے والے کچرے سے اب نامیاتی کھاد بنانے کا عمل شروع کیا گیا ہے۔

غیر سرکاری ادارے ڈاکٹر اختر حمید خان ٹرسٹ اور غیرملکی این جی او نارویجن چرچ اینڈ این سی اے کے تعاون سے ضلع مردان میں انٹیگریٹڈ ریسورس ریکوری سینٹر بنایا گیا ہے، جہاں گلی کوچوں اور منڈیوں کے کچرے کو کارآمد بنا کر نامیاتی کھاد بنائی جاتی ہے۔

واٹر اینڈ سینیٹیشن سروسز کمپنی مردان (ڈبلیو ایس ایس سی ایم) کے چیف ایگزیکٹو امیر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 2016 میں قائم کی کی گئی یہ کمپنی تقریباً چار لاکھ لوگوں کی خدمت کر رہی ہے اور روزانہ دوسوٹن کچرا اٹھاتی ہے۔

انہوں نے بتایا: 'یہ غیرسرکاری اداروں کے تعاون سے بنایا گیا خیبرپختونخوا کا پہلا پروجیکٹ ہے، جس سے مردان کے علاقوں سے اکھٹا کیے جانے والے کچرے کو کارآمد بناکر کھادمیں استعمال کیا جاتا ہے، جس سے ہماری ڈمپنگ سائیڈ لینڈ کی لائف بھی بڑھ جائے گی اور کچرا بھی زمین میں جانے کی بجائے نامیاتی کھاد میں استعمال کیا جائے گا۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ نامیاتی کھاد پوری دنیا میں سبزیوں، باغات اور نرسریوں کے لیے استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں پر لوگ مصنوعی کھاد استعمال کرتے ہیں جو انسانی زندگی کے لیے نقصان دہ ہے، لہذا اب مردان کے کاشتکاروں کو چاہیے کہ وہ مصنوعی کھاد کی بجائے نامیاتی کھاد استعمال کریں جو سستی بھی ہے اور فائدہ مند بھی ہے۔

یہ پلانٹ حکومتی کمپنی کی تحویل میں کب دیا جائے گا؟

اس سوال کے جواب میں ڈبلیو ایس ایس سی ایم کے سی او امیر خان نے بتایا کہ مارچ 2020 میں اس پلانٹ پر ایک غیر ملکی این جی او کے تعاون سے کام شروع ہوا، جس کے لیے تکنیکی تعاون ڈاکٹر اختر حمید خان ٹرسٹ نے مہیا کیا۔ ابھی تجرباتی بنیادوں پر پلانٹ کے آغاز کو دو ماہ ہوئے ہیں اور ساڑھے سات ٹن نامیاتی کھاد تیار کیا جاچکا ہے جبکہ مزید بھی تیار ہو رہا ہے۔ غیر سرکاری اداروں سے ہونے والے معاہدے کے تحت ایک سال بعد اس پلانٹ کو مردان کی واٹر اینڈ سینیٹیشن کمپنی کے حوالے کردیا جائے گا۔

کھاد کو کس طرح مارکیٹ میں بھیجا جائے گا؟

امیر خان نے بتایا کہ اس کے لیے مارکیٹنگ کی حکمت عملی بھی مشترکہ طور پر تیار کی جارہی ہے، محکمہ زراعت اور دوسرے اداروں سے بھی اس سلسلے میں بات چل رہی ہے جو پہلے سے نامیاتی کھاد استعمال کر رہے ہیں جبکہ کھاد کے لیے اب 20 روپے فی کلو قیمت مقرر کردی گئی ہے۔

کھاد سے ملنے والے رقم کس مد میں خرچ ہوگی؟

کمپنی کے سی او امیر خان نے بتایا کہ اس پروجیکٹ سے ملنے والی کھاد کی آمدن صرف اس پلانٹ کے اخراجات پورا کرسکے گی، جس میں کام کرنے والے ملازمین اور کچرے کی ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات شامل ہیں۔ ابھی اس پلانٹ میں روزانہ پانچ ٹن کچرا لایا جاتا ہے جبکہ بعد میں بننے والے پلانٹس اس سے بڑے ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خیبرپختونخوا کا پہلا پلانٹ ہے جو یہاں پر لگایا گیا ہے۔ اب خیبرپختونخوا سٹیزن امپرومنٹ پروجیکٹ کے نام سے ایک اور پروجیکٹ بھی شروع ہونے جارہا ہے، جس کے تحت سینیٹری لینڈ فیلڈ سائٹ پر یہ کمپوسڈ پلانٹ ہر شہر میں بنائے جائیں گے تاکہ کم سے کم کچرا ڈمپنگ کی طرف جائے اور ہماری سینیٹری لینڈ فیلڈ سائٹ کی زندگی بڑھتی جائے۔

انٹیگریٹڈ ریسورس ریکوری سینٹر کو تکنیکی سہولیات مہیا کرنے والے غیر سرکاری ادارے ڈاکٹر اختر حمید خان ٹرسٹ کی چیف ایگزیکٹو سمیرا گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ فیسیلٹی نارویجن چرچ اینڈ این سی اے کے توسط سے 20 ملین روپے کی لاگت سے بنا ہے۔

انہوں نے بتایا: 'اس کا کام کا طریقہ کار یہ ہے کہ مردان ویسٹ منیجمنٹ کمپنی کی گاڑیاں اور سٹاف فروٹ اور سبزی منڈی سے روزانہ پانچ ٹن کچرے کو ٹرانسپورٹ کرتے ہیں۔ اس مقصد کے لیے پورے شہر میں کمپنی کے ڈرائیوروں اور سپروائزروں کو تربیت دی گئی ہے کہ جہاں جہاں پر ڈمپنگ کنٹینر پوائنٹ ہیں، وہاں پر کچرے کی سیگریگیشن (علیحدہ علیحدہ) کریں ۔ چار گاڑیوں کی مدد سے روزانہ آٹھ سے دس ٹن کچرا یہاں پر آرہا ہے۔'

بقول سمیرا گل: 'کچرا یہاں پر آکر اَن لوڈ کیا جاتا ہے، پھر اس کی سیگریگیشن ہوتی ہے اور تولنے کے بعد کمپوسٹ باکس میں ڈالا جاتا ہے۔ تقریباً 45 دن باکس میں رہنے کے بعد یہ قدرتی طور پر ڈی کمپوز ہوجاتا ہے جبکہ لیچڈ کو ڈرین کے راستے نکال دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد دن میں دو مرتبہ اس کا درجہ حرارت نوٹ کیا جاتا ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ اگر اس کا درجہ حرارت بڑھ جائے تو اس میں مائیکریبز اپنا کام شروع کردیتے ہیں اور پروسیسنگ شروع ہو جاتی ہے۔ باہر اگر ٹمپریچر دس ہے تو باکس کے اندر 50 یا 60 ملے گا۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ عمل جاری ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سمیرا گل نے بتایا کہ اگر لیچڈ اور درجہ حرارت صحیح رکھا جائے تو اعلیٰ کوالٹی کی کھاد تیار ہوتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ 'باقی 15 دنوں کے لیے میچورنگ باکس میں تمام میٹیریل رکھا جاتا ہے اور وہاں پر تیار ہوکر پھر اسے گرائنڈنگ مشین میں گرائنڈ کرکے پیک کرتے ہیں۔'

سمیرا گل کے مطابق: 'سمال نرسنگ کے لیے دو سے پانچ کلو جبکہ کسانوں کے لیے 25 کلو کی پیکنگ کی جاتی ہے جبکہ فی بوری قیمت 20 روپے متعین کی گئی ہے۔'

انہوں نے مزید بتایا کہ اس ماڈل کے انتخاب کا مقصد ویسٹ کو زیرو ویسٹ کی طرف لے جانا ہے۔ 'یہ گرین ہاؤس گیسز کو کنٹرول کرتا ہے، کچرا جلانے سے سموگ کے مسائل کم ہوجاتے ہیں جبکہ پاکستان میں سڑکوں اور نالیوں میں کچرے کی وجہ سے ماحول گندہ اور شہری سیلاب آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔'

سمیرا گل نے بتایا کہ کلین گرین پاکستان مہم کے تحت جن شہروں کا انتحاب کیا گیا ہے اور جن میں یہ ماڈل منظور ہوا ہے، ان میں 12 شہر صوبہ پنجاب اور سات شہر صوبہ خیبرپختوا کے شامل ہیں۔  

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات