شکر کرو تمہیں کوئی اپنی بیٹی دے رہا ہے

دوست کو مشورہ: اس احمق سے شادی نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔ یہ نہ کر سکو تو نکاح نامے میں طلاق کا حق ضرور اپنے نام کروا لو۔

کراچی کی ایک دلہن (فائل تصویر: اے ایف پی)

ہماری ایک جاننے والی کی شادی ہونے والی ہے۔ ان کے گھر والوں نے ان کا رشتہ ان کی رضامندی سے طے کیا ہے۔ وہ اس رشتے سے بہت خوش تھیں پر اب وہ پریشان ہیں۔ اس پریشانی کی وجہ ان کے ہونے والے صاحب ہیں جو شادی کی رات ان کا امتحان لینے کو تیار بیٹھے ہیں۔

ہماری جاننے والی اس امتحان میں فیل ہونےسے ڈرتی ہیں۔ انہوں نے بہت سی عورتوں کو اس امتحان کے بعد طلاق ملتے دیکھا اور سنا ہے۔ وہ بہت ڈری ہوئی ہیں۔ ہم نے انہیں سمجھانے کی بہت کوشش کی پر وہ اتنی پریشان ہیں کہ کچھ سمجھ ہی نہیں رہیں۔

پڑھی لکھی خاتون ہیں۔ سب جانتی ہیں، پر ان کے صاحب نہیں جانتے۔ حالانکہ پڑھے لکھے ہیں۔ اچھی نوکری کرتے ہیں۔ فارغ وقت میں کتابیں پڑھتے ہیں۔ دو چار ممالک کا سفر بھی کر چکے ہیں۔ دنیا کے ہر موضوع پر گھنٹوں بول سکتے ہیں۔ اس کے باوجود ایسی چھوٹی اور گھٹیا سوچ رکھتے ہیں۔

ہم نے اپنی دوست سے کہا کہ وہ اس موضوع پر بھی ان سے دو چار جملے بلوا لیں تاکہ معاملہ صاف ہو جائے اور ان کی پریشانی بھی کم ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ عقل مند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ان کے صاحب تو واضح اشارے دے چکے ہیں۔ کہنے لگیں، اب سوال جواب چھوڑو اور میری مدد کرو۔ کوئی ڈاکٹر ڈھونڈو جو کم از کم یہی بتا دے کہ امتحان دینے کے لیے میرے پاس مطلوبہ اہلیت ہے بھی یا نہیں۔

اتنے سال گزر گئے۔ بچپن ایسی بے فکری میں گزرا۔ کراٹے بھی سیکھا، تیراکی بھی کی، گھڑ سواری بھی کی، پچھلے کئی سالوں سے جِم بھی جا رہی ہوں۔ امی روکتی رہتی تھیں۔ ایسے نہ بیٹھو۔ ایسے نہ کھیلو۔ بھاری سامان نہ اٹھاؤ۔ میں نے کبھی ان کی نہیں سنی۔ مجھے ان کی باتیں دقیانوسی لگتی تھیں۔ مجھے پتہ ہوتا وہ یہ سب کیوں کہہ رہی ہیں تو میں کبھی ان کی حکم عدولی نہ کرتی۔

ان کی یہ بات سن کر ہمیں اپنی یونیورسٹی کی ایک دوست یاد آ گئی جس نے بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی امی کی ہر بات سنی اور مانی۔ اس کی امی نے اسے جیسے کہا، اس نے بالکل ویسے ہی کیا۔ اپنی شادی سے پہلے وہ بھی پریشان تھی۔ یعنی معاملہ امی کی بات ماننے یا نہ ماننے کا نہیں ہے بلکہ اس سوچ کا ہے جو عورت سے اس کے گزرے ہر دن کا حساب مانگنا اپنا حق سمجھتی ہے۔

ہماری اس دوست کی شادی کے بعد ہمارے ایک دوست کی شادی ہوئی تھی۔ یہ شادی سے پہلے اتنی ہی آزاد زندگی گزار رہے تھے جتنی ہمارے ملک کے بہت سے مرد گزارتے ہیں۔ جو چاہا کر لیا، جو چاہا پا لیا۔ کوئی ڈر نہیں، کوئی خوف نہیں۔ شادی طے ہوتے ہی انہوں نے الوداعی ملاقاتیں شروع کر دیں۔ دوستوں نے روکا تو کہنے لگے سزائے موت کے قیدی کی بھی آخری خواہش پوری کی جاتی ہے۔ میں بھی اپنی آخری ’خواہشات‘ پوری کر رہا ہوں۔ ان کی شادی کو سات سال گزر چکے ہیں۔ ان کی اہلیہ روزانہ نفل پڑھتی ہیں۔ آخر اللہ نے انہیں اتنے نیک شوہر سے نوازا ہے جس نے ان سے نکاح نامے پر سائن کرنے سے پہلے بات کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اسلام میں ٖغیر محرموں کا آپس میں بات کرنا منع ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہم نے اپنی دوست سے کہا کہ دیکھو ہماری اس دوست کا شوہر تو اتنا پڑھا لکھا بھی نہیں تھا پر دیکھو کس قدر اچھا نکلا۔ تم بھی اچھے کی امید رکھو۔ ہماری بات سن کر وہ رونا شروع ہو گئیں۔ انہیں روتے دیکھ کر ہمیں وہ سب کچھ سمجھ آ گیا جو وہ اتنی دیر سے ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔

اب ہمیں ان کے صاحب پر غصہ آ رہا ہے۔ عجیب احمق انسان ہیں۔ دنیا کہاں کی کہاں پہنچ گئی اور وہ ایک جھلی کی چاہ میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی دوست کو اس وقت تو یہ مشورہ نہیں دے سکے پر اب دے رہے ہیں۔ دوست، اس احمق سے شادی نہ ہی کرو تو بہتر ہے۔ اگر یہ شادی نہ ختم کروا سکو تو نکاح نامے میں طلاق کا حق ضرور اپنے نام کروانا۔ زندگی کے اس نئے مرحلے میں وہی تمہارا اصل ساتھی ہو گا۔

پیاری دوست، جس سے تم بیاہ رچانے جا رہی ہو، ہمیں تو وہ دنیا کا سب سے بڑا احمق لگ رہا ہے۔ ذرا اسے کہو کہ خود کو شیشے میں جا کر دیکھے۔ کیا وہ اس قابل ہے کہ کوئی اس پر بھروسہ کرکے اس کے ساتھ شام کو چہل قدمی کرنے جا سکے؟ تم تو پوری زندگی اس کے ساتھ گزارنے کا وعدہ کیے بیٹھی ہو۔ کیا وہ تمہارے اس بھروسے کے لائق ہے؟

اسے کہو کہ اتنی ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد بھی وہ جاہل ہی ہے۔ لوگ زندگی میں کیا کچھ نہیں کرنا چاہتے اور یہ بس ایک جھلی توڑنا چاہتا ہے؟ اس کی زندگی کا مقصد بس یہ ہے؟ کیا وہ شادی بس اس ایک لمحے کے لیے کر رہا ہے؟

اس سے پوچھو، اسے یہ امتحان لینے کا حق کس نے دیا؟ اس سے یہ بھی پوچھو کہ اس امتحان کو لینے کی قابلیت اس نے کب اور کیسے حاصل کی؟

اسے بتاؤ کہ اس جیسی پدر شاہی کی پیداواروں کو اس نظام کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ یہ نظام نہ ہوتا تو کوئی عورت ان سے شادی نہ کرتی۔ اس احمق کو تمھارے والدین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو اپنی جان سے پیاری بیٹی اس کے حوالے کر رہے ہیں۔

اسے بتاؤ کہ تم نے اس کا ساتھ دینے کا وعدہ کر ہی لیا ہے تو وہ بھی تمہارے اس وعدے کی لاج رکھتے ہوئے تمہیں وہ عزت دے، جس کی خاطر تم اس کے ساتھ زندگی گزار سکو۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکے تو اس سے قطع تعلق کر لو۔

اس جیسا انسان تمہاری جیسی عورت کے قابل نہیں۔ ابھی بھی وقت ہے، سوچ لو۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ